لندن میں پبلک ٹرانسپورٹ پر گھورنے کے خلاف مہم کا آغاز: ’25 منٹ کی ڈرائیو کے دوران اس شخص نے مجھ سے نظریں نہیں ہٹائیں‘
’پبلک ٹرانسپورٹ پر’گھورنا‘ جنسی ہراسانی کی ایک شکل بن سکتی ہے اور اس کی اطلاع پولیس کو دی جانی چاہیے۔‘ یہ ایک متنازع مہم کی وارننگ ہے جو ان دنوں لندن انڈر گراؤنڈ پر دیکھی جا سکتی ہے۔
برطانوی دارالحکومت کے ٹرانسپورٹ نیٹ ورک میں اس سلسلے کے پوسٹر ہراساں کرنے اور ناپسندیدہ رویے کی مختلف اقسام کو روکنے کی قومی کوشش کا حصہ ہیں۔
للچائی ہوئی نظروں سے گھورنا ان میں سے ایک ہے۔ ہراسانی کی دوسری اقسام میں کسی کو چھونا، سیٹی بجانا یا جسمانی اعضا کی غیر مہذب نمائش کرنا ہے۔
اس مہم کے حق میں اور خلاف رد عمل سامنے آیا ہے۔ بہت سے لوگ اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے اس کی تعریف کرتے ہیں جس سے بہت سی خواتین تعلق رکھتی ہیں جبکہ دوسروں کو لگتا ہے کہ یہ بہت زیادہ حساس ہے۔
حال ہی میں میگزین ’دی سپیکٹیٹر‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق ’کسی پبلک مقام پر کسی کو دیکھنے کے عمل کو جرم بنانا بہت پریشان کن عمل ہے‘ لیکن جن لوگوں کو ٹرینوں میں ایسے رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ کہتے ہیں کہ حالات بہت پریشان کن ہیں۔
پوسٹرز ہراساں کرنے کے واقعات کو روکنے کے لیے ایک وسیع تر مہم کا حصہ ہیں
’میں محسوس کر سکتی تھی کہ آدمی میری طرف دیکھ رہا ہے‘
مشرقی لندن سے تعلق رکھنے والی بیکس تھیٹر میں رات گزارنے کے بعد ٹیوب پر گھر جا رہی تھیں کہ ان کے سامنے بیٹھا ایک شخص انھیں گھورنے لگا۔ 10 منٹ کی ڈرائیو کے دوران وہ انھیں مسلسل گھورتا رہا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں اپنے سیل فون کو دیکھ رہی تھی اور کوشش کر رہی تھی کہ میں اسے نہ دیکھوں۔‘
جب وہ اپنے سٹاپ پر پہنچیں اور ٹیوب سے باہر نکلیں تو وہ شخص بھی ان کے پیچھے باہر آ گیا ۔ وہ بس میں سوار ہونے سے پہلے سٹیشن ہال میں پانچ منٹ انتظار کرتی رہیں۔
’وہ ایک میٹر سے بھی کم فاصلے پر کھڑا مجھے گھور رہا تھا۔‘
وہ یاد کرتی ہیں کہ میں نے تیزی سے سیڑھیاں چڑھیں اور ’جب میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ وہیں کھڑا تھا اور میری طرف ہاتھ ہلا رہا تھا۔‘
’پہلے تو مجھے لگا کہ میں حد سے زیادہ رد عمل ظاہر کر رہی ہوں‘ لیکن ستم ظریفی یہ کہ بیکس کو گھورنے والا شخص یہ سب کچھ گھورنے کے خلاف چلائی والی مہم کے پوسٹر کےنیچے بیٹھ کر رہا تھا۔
بیکس کہتی ہیں ’یہ مہم دیکھ کر مجھے احساس ہوا ہے کہ تحفظ کا احساس میرا حق ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
اسی طرح کا معاملہ لوسی تھوربرن کا ہے، جو صبح نو بجے کے قریب وسطی لندن کی گاڑی میں سفر کر رہی تھیں، جب انھیں ایک مسافر نے گھورنا شروع کر دیا۔
وہ کہتی ہیں کہ 25 منٹ کی ڈرائیو کے دوران اس شخص نے ان سے نظریں نہیں ہٹائیں۔
’10 منٹ کے بعد میں بہت بے چین ہونے لگی۔ میں نے ایسی نگاہیں دیکھیں جنھوں نے بعد میں میرا پیچھا شروع کر دیا۔‘
کچھ لوگوں کو کسی کا گھورنا شاید اتنا برا نہ لگے لیکن یہ کسی اور مصیبت کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔
گھورنا ’اضطراب اور خوف کا باعث بن سکتا ہے‘
یہ مہم ایک ایسے ماحول میں ہو رہی ہے جب حالیہ ہفتوں میں ایک شخص کو ٹرین میں ایک عورت کو گھورنے اور اس کو باہر نکلنے سے روکنے کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا۔
یہ واقعہ انگلینڈ کے جنوب میں ریڈنگ اور نیوبری کے درمیان سفر کے دوران پیش آیا۔ اس شخص کو عورت کا پیچھا کرنے کا مجرم پایا گیا اور اسے 22 ہفتے قید کی سزا سنائی گئی۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس مہم کا مقصد سب وے پر جنسی ہراسانی کو ختم کرنا ہے
برطانیہ میں یا دوسرے ممالک میں گھورنا غیر قانونی نہیں لیکن ایسے انداز میں گھورنا جو دوسرں کے لیے پریشانی کا باعث بنے، وہ پبلک آرڈر جرم کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
ٹی ایف ایل کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گھورنا ناپسندیدہ جنسی رویے کی سب سے عام قسم ہے جس کا نشانہ اکثر عورتیں ہوتی ہیں۔
لندن میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں چائلڈ اینڈ ویمن ابیوز سٹڈیز یونٹ کی فیونا ویرا گرے کہتی ہیں کہ یہ ’عوامی جنسی ہراسانی‘ کی ایک لطیف شکل ہے۔
یونیورسٹی آف کینٹ سے تعلق رکھنے والی افرودیتی پینا کہتی ہیں کہ نظریں گاڑ کر گھورنا ’اضطراب اور خوف کا باعث بن سکتا ہے۔‘
برٹش ٹرانسپورٹ پولیس کے ترجمان نے کہا ہے کہ ٹرانسپورٹ نیٹ ورک پر ہر قسم کی جنسی ہراسانی کو ختم کرنا ان کی ترجیح ہے اور تمام رپورٹ شدہ واقعات کو جارحانہ رویے کی تصویر بنانے میں مدد کے لیے ریکارڈ کیا جاتا ہے۔
Comments are closed.