- مصنف, زاریا گورویٹ
- عہدہ, بی بی سی فیوچر
- 11 منٹ قبل
امریکی جزیرے گوام میں آس پاس کے دیگر جزیروں کے مقابلے میں 40 گنا زیادہ مکڑیاں ہیں اور سانپوں کی آبادی اس قدر ہے کہ انھوں نے یہاں کے سارے پرندوں کو کھا کر ختم کر دیا ہے۔پانچ سال پہلے، ہالڈرے راجرز نے فلپائن سے تقریباً 1500 میل دور مغربی بحر الکاہل میں جزیرے گوام پر ایک اجتماع میں شرکت کی۔لیکن اس محفل کو جلد ہی ایک بن بلائے مہمان نے روک دیا۔رات کے کھانے سے بچا ہوا سور کا گوشت ابھی انگاروں پر تھا، آگ کے شعلے بجھ رہے تھے لیکن آگ ابھی تک گرم تھی۔ وہ سب باتیں کرتے ہوئے وہاں سے کچھ دیر ہٹے اور جب وہ واپس آئے تو انھوں نے سور کے گوشت کے گرد ایک بھورے رنگ کی چیز کو لپٹا ہوا دیکھا۔
یہ ایک چمکدار، کھردرا وجود تھا، جس کا چوڑا سا سر تھا۔ یہ مخلوق سور سے گوشت کے ٹکڑوں کو پھاڑ رہی تھی اور آہستہ آہستہ انھیں پوری طرح نگل رہی تھی۔امریکہ میں ورجینیا ٹیک کے محکمہ فشریز اور جنگلی حیات کے تحفظ کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر راجرز کہتے ہیں ’اگرچہ یہ کوئی 200 کلو گرام وزنی سور نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ ایک اچھی خاصی دعوت کا سامان تھا۔‘یہ ایک بھورے رنگ کا ٹری سنیک تھا۔ یہ سانپوں کی ایک حملہ آور نسل ہے جو سنہ 1940 کی دہائی میں شاید ایک مال بردار جہاز میں چھپ کرگوام پہنچی تھی۔اس سے پہلے بہت سے مقامی پرندے جزیرے کے سرسبز جنگلات کا لطف اٹھاتے تھے لیکن ان سانپوں کی آمد کے صرف چار دہائیوں بعد وہاں پرندوں کا وجود ہی ختم ہو گیا۔آج جزیرے کے 12 پرندوں کی 10 اقسام معدوم ہو چکی ہیں جبکہ باقی دو نے ناقابل رسائی غاروں اور شہری علاقوں میں پناہ لے لی ہے۔گوام پر تقریباً 20 لاکھ سانپوں کی آبادی (کوئی نہیں جانتا کہ اصل میں کتنے ہیں) چوہوں، چھپکلیوں اور انسانی خوراک کے بچے ہوئے حصوں سمیت ہر چیز کو کھا جاتی ہے۔کولوراڈو کی ایک غیر منافع بخش تنظیم، سدرن پلینز لینڈ ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہنری پولک جنھوں نے گوام کے ماحولیات کا مطالعہ کیا ہے وہ کہتے ہیں ’انھیں جو کچھ بھی ملتا ہے وہ کھا جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کو بھی کھا جاتے ہیں۔‘بھورے سانپوں کے حملے اور خاموش جنگلات کے باعث گوام کرہ ارض پر سب سے زیادہ ماحولیاتی تباہی کی مثال بن گیا۔لیکن اس بحران کے نتائج اس سے کہیں زیادہ دور رس ہیں کہ پرندوں کی کمی کی وجہ سے وہاں کے جنگلات کی خاموشی بہت ہی پریشان کن محسوس ہوتی ہے۔ گوام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک ارتقائی تجربہ ہے۔،تصویر کا ذریعہAlamy
ایک بڑا نیٹ ورک
اس قسم کے زیادہ تر جزائر میں بارش کے موسم میں مکڑیاں نسبتاً کم ہوتی ہیں اور جب موسم خشک ہو جاتا ہے تو ان میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن گوام میں ایسا نہیں ہے۔جزیرے کے چونے کے پتھر والے جنگلات میں مکڑیاں سالوں بھر رہتی ہیں۔ میلوں تک پھیلے چاندی کے دھاگے جن میں آپ تقریباً مسلسل الجھتے ہیں، جہاں آپ کا ہر قدم ایک اور جال اور اس کے میزبان سے ملواتا ہے۔یہاں دیوہیکل پیلے پیٹ والی کیلے کی مکڑیاں ہیں، جن کے سنہری جالے کلاسک پہیلی کے انداز میں ہیں۔ انسانی ہاتھ کے سائز کی خیمہ نما مکڑیاں جو درختوں کے سوراخوں کو اپنی وسیع ریشمی تاروں سے ڈھانپتی ہیں۔راجرز اس قسم کے جال کو ’کنڈومینیئم ٹائپ‘ کہتے ہیں کیونکہ ہر ایک اپارٹمنٹ کمپلیکس کی طرح لگتا ہے جو آٹھ ٹانگوں والی مخلوق کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے: ان میں سینکڑوں چمکتی آنکھیں ہوتی ہیں، جو درجنوں مکڑیوں کی ہیں۔راجرز کا کہنا ہے کہ ’اس بڑے جال پر مختلف مقامات پر کئی مادہ بیٹھی ہوتی ہیں اور پھر کئی نر کناروں کے گرد لٹک رہے ہوتے ہیں۔‘یہ جالے چھوٹی مکڑیوں کے بھی پسندیدہ ہیں، جو شکار چوری کرتے دکھائی دیتے ہیں اور کبھی کبھار اپنے بہت بڑے میزبانوں کو کھا جاتے ہیں۔’گوام پر یہ (کونڈو جال) زمینی سطح سے لے کر شامیانے کی بلندی تک کہیں بھی ہو سکتے ہیں۔‘ایسا لگتا ہے کہ پورا جنگل ہالووین کے لیے مصنوعی مکڑی کے جالوں سے ڈھکا ہوا ہے۔راجرز کا کہنا ہے کہ ’یہ اتنا زیادہ ہے کہ جب آپ پیدل سفر کر رہے ہوتے ہیں، تو سامنے والے کے لیے یہ معمول کی بات ہے کہ وہ چھڑی لے کر چلے اور چلتے ہوئے جالوں کو گراتا جائے۔ ورنہ آپ جالوں میں ڈھک جائیں۔ مجھے یہ پسند ہے لیکن اس سے گزرنا مشکل ہے۔‘جہاں کہیں بھی درختوں کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے، وہ جگہ سینکڑوں مختلف مکڑیوں کے جالوں سے بھر جاتی ہے۔ ان کی اجتماعی کوششیں آسانی سے ایک کمرے کے سائز کی جگہ پر قبضہ کر سکتی ہیں۔راجرز کا کہنا ہے کہ ’ایک بار میرا ایک دوست تھا جو مکڑی کے جالے کے بیچ میں آ گیا تھا اور وہ مکڑی کے جالے کے اس بڑے ٹکڑے میں ایک ممی کی طرح گھوم رہا تھا۔ اس نے یہ کام ان لوگوں کو ڈرانے کے لیے کیا جو اس کے ساتھ تھے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایک پیچیدہ ماحولیاتی نظام
جنگل کے فرش پر مٹی بہت کم ہے۔ اس کے بجائے پودے چونے کے پتھر سے براہ راست اُگتے ہیں، اپنی جڑوں سے چٹان میں چھوٹی دراڑیں بنا دیتے ہیں۔یہ جنگل ایک قدیم مرجان کی چٹان پر ہے اور جہاں چٹان مٹ گئیں ہیں وہاں گڑھے اور غار ہیں۔راجرز کہتے ہیں ’میرے خیال میں جو چیز اسے خاص بناتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں چلنا واقعی مشکل ہے۔ آپ نوکیلے پتھروں پر چلنے کا تصور کریں۔‘یہاں آنے والے نئے فیلڈ ٹیکنیشنز کو سروے کے دوران اس چٹان کی سطح سے ہم آہنگ ہونے کے لیے کافی وقت درکار ہے۔ چنانچہ جب راجرز نے سنہ 2012 میں مکڑیوں پر ایک مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ جانتے تھے کہ یہ ایک چیلنج ہوگا۔ہمیشہ یہ افواہیں پھیلتی رہتی ہیں کہ گوام خاص طور پر مکڑیوں والا جزیرہ تھا اور اس کا پرندوں کی عدم موجودگی سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے جو عام طور پر مکڑیاں کھانا پسند کرتے ہیں۔تاہم راجرز وضاحت کرتے ہیں کہ جزیرے کی تقریباً 180,000 آبادی شاذ و نادر ہی دوسرے شمالی ماریانا جزائر کا سفر کرتی ہے۔یہ جاننے کے لیے کہ گوام پر کتنے ارچنیڈز نے قبضہ کر لیا تھا، راجرز اور ان کے ساتھی جزیرے کے جنگلات میں کراس سیکشنل سروے مکمل کرنے کے لیے نکلے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے، محققین نے احتیاط سے اپنے پیروں کے نیچے کٹی ہوئی مرجان کی چٹان کے اوپر اپنا راستہ منتخب کیا۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھے، سائنسدانوں نے احتیاط سے اپنے راستے میں جالوں کو شمار کرنا شروع کیا۔سائنسدانوں نے پایا کہ یہاں مکڑیوں کی شاندار تناسب میں آبادی تھی۔ نم موسم کے دوران، گوام کے جنگلات میں قریبی جزائر روٹا، ٹینین اور سائپان کے مقابلے میں 40 گنا زیادہ مکڑیاں موجود تھیں، جب کہ خشک موسم میں جب مکڑیوں کی آبادی بہت زیادہ تھی۔ گوام پر 2.3 گنا زیادہ مکڑیاں تھیں۔ گوام پر کیلے کی مکڑیوں کے جالے بھی تقریباً 50 فیصد بڑے تھے۔سال بھر، گوام کے جنگلات مکڑیوں کے جالوں سے جگمگاتے رہے: ٹیم کو نم اور خشک موسموں میں بالترتیب 1.8 اور 2.6 جال فی میٹر ٹرانسیکٹ لائن ملے۔اگر گوام کے جنگلات کے پورے علاقے کا جائزہ لیا جائے تو ان کی تعداد مجموعی طور پر 508 سے 733 ملین مکڑیوں کے برابر ہوگی، جو اپنے جالوں میں گھومتی ہیں اور اپنے شکار کا رس چوستی ہیں۔ یہ فی جالا ایک مکڑی کے حساب سے ہے حالانکہ اکثر اور بھی بہت سے جالے ہیں اور صرف وہی شمار میں آتے ہیں جو زمین سے دو میٹر دور تک ہیں۔
،تصویر کا ذریعہAlamy
ایک ضدی حملہ آور
اگرچہ یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ بھورے درخت کے سانپ گوام کے ماحولیاتی نظام کے توازن کو بگاڑ رہے ہیں لیکن دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد وہاں انھیں لائے جانے کے بعد سے اس حقیقت پر کم از کم چار دہائیوں تک کسی کا دھیان نہیں گیا۔ لیکن پھر سنہ 1980 کی دہائی کے آخر میں ماحولیات کو بچانے والے کچھ افراد نے یہ نوٹس کیا کہ کوئی چیز جزیرے کے پرندوں کو مار رہی ہے، لیکن کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ کیا ہے۔جولی سیویج نے اس پراسرار قاتل کا سراغ لگانے کا فیصلہ کیا۔ وہ اس وقت پی ایچ ڈی کی طالبہ تھیں۔ پرندوں کی موت کے بارے میں شبہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس کی وجہ کیڑے مار دوا یا وائرس ہے۔ لیکن پھر سنہ 1987 میں شائع ہونے والی ان کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ حقیقت میں سانپ انھیں کھا رہے تھے۔گوام کے زیادہ تر پرندوں کے پاس کوئی ارتقائی نظام موجود نہیں تھا جو انھیں سانپوں سے بچنے میں مدد کر سکے۔ نتیجتا، جب شکاری سانپ وہاں پہنچے تو انھیں بے دفاع پرندوں کی ایک شاندار دعوت ملی اور وہ جلد ہی ان کا کھانا بننے لگے۔جب تک سیویج نے محسوس کیا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے تب تک پرندوں کی زیادہ تر انواع کے لیے بہت دیر ہو چکی تھی۔ مثال کے طور پر گوام کی فلائی کیچر چڑیا کو آخری بار سنہ 1984 میں جنگل میں دیکھا گیا تھا اور بڑی آنکھوں کے ساتھ پنکھوں والی اس چھوٹی سے گیند جیسی چڑیا کو اب معدوم سمجھا جاتا ہے۔صرف حالیہ برسوں میں محققین نے بھورے درخت کے سانپوں کی وجہ سے ماحولیاتی افراتفری کے حقیقی پیمانے کو کھولنا شروع کیا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
ناقابل تلافی
حالیہ دہائیوں میں کنزرویشن اور جنگلی حیات کے اہلکاروں نے گوام سے بھورے درخت کے سانپ کو ختم کرنے کی کوشش میں ہر ممکن طریقہ استعمال کیا ہے۔ لیکن رینگنے والے جانور اب تک جنگ جیت رہے ہیں۔ انھوں نے اب تک ان کے خلاف بصری تلاشوں، ریپیلنٹ، اریٹینٹ، پھندوں، زہروں اور مہلک کیمیکلز کا استعمال کیا ہے۔محققین نے ایسے وائرسوں کی بھی تلاش کی ہے جو بھورے درختوں کے سانپوں کے خلاف حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال ہو سکتے ہیں، تاکہ دوسری جنگلی حیات کو متاثر کیے بغیر ان کی بڑی تعداد کو ختم کیا جا سکے۔یہ طریقہ خرگوشوں میں مائیکسومیٹوسس کی طرح کام کرے گا جو ان کی تعداد کو کم کرنے کی کوشش میں بڑے پیمانے پر (بشمول فرانس میں، غیر قانونی طور پر اور آسٹریلیا میں) کیا گيا لیکن اس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر دوسری تکالیف بھی پیدا ہوئی ہیں۔لیکن شدید کوششوں اور سانپوں پر قابو پانے اقدامات کے باوجود انھیں قابل ذکر حد تک ختم کرنا ناممکن ثابت ہوا ہے حالانکہ اس سالانہ 3.8 ملین ڈالر کے اخراجات آ رہے ہیں۔ صرف چند استثنی ہیں اور ان میں زمین کے چند چھوٹے ٹکڑے آتے ہیں۔مثال کے طور پر گوام میں اینڈرسن ایئر فورس بیس پر ہیبی ٹیٹ مینجمنٹ یونٹ کو ہی لے لیں۔ وہاں کے تجربے سے پتہ چلا ہے عام طور پر بغیر ڈاکٹر کے نسخے کے ملنے والی دوا ایسٹامنفین بھورے درخت کے سانپوں کے لیے خاص طور پر زہریلی ثابت ہوئی ہے۔ اس کی 80 ملی گرام کی خوراک سے بڑے سے بڑے سانپ مر جاتے ہیں۔ 80 ملی گرام ایک معیاری 500 ملی گرام والی انسانی گولی میں پائی جانے والی مقدار کا تقریباً چھٹا حصہ۔وہاں ایک جامع پروگرام اپنایا گیا جس میں زہر آلود کھانے کے ساتھ ایک باڑ کی تعمیر بھی شامل تھی جس کے تحت پورے علاقے کے گرد ایک ‘سانپ پروف’ باڑ کی تعمیر کی گئی تاکہ اسے فوری طور پر دوبارہ وہان آباد ہونے سے روکا جا سکے۔ اس بعد ہی کہیں جا کر ایئر بیس کے ارد گرد کے علاقے میں ان کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔بدقسمتی سے، بہت سے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ گوام کے جنگلات سے اس طرح سے براؤن ٹری سانپوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کا خیال تو چھوڑ ہی دیں نمایاں تعداد میں بھی ان کا ختم کرنا ناممکن ہو گا۔ حالانکہ ایسا کرنے کی جلدی ہے کیونکہ جنگل خود خطرے میں ہے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔،تصویر کا ذریعہAlamy
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.