امریکی انتخابات ایریزونا میں ریپبلکن ابھی تک ووٹوں کی گنتی کیوں کر رہے ہیں؟
- انتھونی زورکر
- بی بی سی شمالی امریکہ نامہ نگار
امریکہ میں صدارتی انتخاب ہوئے اب مہینوں بیت چکے ہیں۔ بے شک ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی شکست نہ تسلیم کی ہو لیکن وہ وائٹ ہاؤس چھوڑ چکے ہیں۔
جو بائیڈن کو صدر کا عہدہ سنبھالے 100 دن سے زیادہ ہو چکے ہیں اور ان کی پالیسی کا محور اب کورونا کی وبا کےریلیف سے ہٹ کر ملک میں بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری کی طرف مڑ چکا ہے۔
لیکن ٹرمپ اب بھی اپنی انتخابی شکست کا رونا رو رہے ہیں۔ واشنگٹن میں ریپبلکنز نے ایوان نمائندگان میں اپنی ایک نمایاں رہنما لز چینی کو اس وجہ سے کانگریس کی کمیٹی کی قیادت سے ہٹا دیا ہے کیونکہ انھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے سازشی نظریات کی مخالفت کی تھی۔
فینیکس، ایریزونا میں ابھی تک ووٹوں کا آڈٹ جاری ہے۔
آڈٹ کیا ہے؟
یہ دراصل ایریزونا کی ماریکوپا کاؤنٹی جس میں فینیکس بھی شامل ہے، میں ڈالے گئے 20 لاکھ ووٹوں کی جانچ پڑتال کا عمل ہے جس کا حکم ایریزونا کی ریاستی سینیٹ نے دیا ہے۔ ریپبلکن پارٹی ریاستی سینیٹ کو کنٹرول کرتی ہے۔
جو بائیڈن نے ماریکوپا سے 45 ہزار ووٹوں سے فتح حاصل کی تھی اور ریاست ایریزونا سے 10457 ووٹوں سے فتح حاصل کی۔ جو بائیڈن سے پہلے بل کلنٹن ہی ایسے ڈیموکریٹ امیدوار تھے جنھوں نے 1992 میں ریاست ایریزونا سے فتح حاصل کی تھی۔
ووٹوں کی جانچ پڑتال کے حامی سمجھتے تھے کہ اگر وہ اس ریاست میں کسی بڑی بدعنوانی کی شہادت حاصل کر لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ صدر ٹرمپ نے ایریزونا ریاست میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اگر ٹرمپ واقعی ایریزونا سے جیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نکالا جائے گا کہ ان ریاستوں میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ ہی جیتے ہوں گے جہاں انھیں کم فرق سے شکست ہوئی تھی۔
لیکن یہاں یہ بہت غور طلب ہے کہ ماریکوپا کاؤنٹی بورڈ آف سپروائزرز جنھوں نے کاؤنٹی کے انتخابی عمل کو خود چلایا ہے اور اس نتائج کی نگرانی بھی کی ہے، وہ اس آڈٹ میں شریک نہیں ہے اور انھیں اس عمل کا حصہ بننے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
تو پھر کون ووٹوں کا آڈٹ کر رہا ہے؟
یہاں صورتحال بہت دلچسپ ہو جاتی ہے۔
ایریزونا کی سینیٹ نے ایک لاکھ 50 ہزار ڈالر ایک ایسی کمپنی کو دیے ہیں جس کا ووٹوں کے اس طرح کے آڈٹ کا کوئی تجربہ بھی نہیں۔ فلوریڈا کی اس کمپنی کا نام سائبر ننجا ہے اور وہ وفاقی حکومت کی طرف سے ووٹنگ سسٹم کو ٹیسٹ کرنے کے حوالے سے سند یافتہ بھی نہیں ہے۔
ووٹوں کے آڈٹ پر اٹھنے والے اضافی اخراجات ریپبلکن پارٹی کے حامی ادا کر رہے ہیں۔ جس انداز میں اس کمپنی کو ووٹنگ کے آڈٹ کے لیے چنا گیا وہ بھی شفاف نہیں ہے۔
سائبر ننجا جو ووٹوں کی گنتی میں شریک افراد کو 15 ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے ادائیگی کر رہی ہے، وہ ووٹوں کی گنتی میں نیلی سیاہی والے قلم کو استعمال کر کے ووٹنگ کی گنتی کے حوالے سے ایک بنیادی غلطی کر چکی ہے۔ نیلی سیاہی کو صرف ووٹ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
کمپنی پر ایسے الزامات لگے ہیں کہ وہ بیلٹ پیپروں اور کمپیوٹروں کو غیر محفوظ چھوڑ کر چلے جاتی ہے۔
ایریزونا میں احتجاج
ٹرمپ کے حامیوں ووٹوں کی گنتی کے مرکز کے باہر احتجاج
ووٹوں کی گنتی کرنے والی کمپنی ’سائبر ننجا‘ کے مالک ڈاگ لوگن کا شمار ڈونلڈ ٹرمپ کے ایسے حامیوں میں ہوتا ہے جو الیکشن کے نتائج کے حوالے سے سازشی نظریات کا پرچار کرتے رہے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو ووٹوں کی جانچ پڑتال سے دور رکھا گیا ہے۔ البتہ ایک رپورٹر نے ایریزونا ریپبلکن پارٹی کے ایک عہدیدار انتھونی کرن کو گنتی کے مرحلے میں شامل ہوتے دیکھا ہے۔ انتھونی کرن چھ جنوری کو ٹرمپ کی ریلی میں شریک ہوئے تھے اور جب ٹرمپ کے حامیوں نے کیپٹل ہل پر دھاوا بولا تھا تو انھیں پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر کھڑا دیکھا گیا تھا۔
آڈیٹر کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟
وہ صدراتی اور سینیٹ کے انتخاب میں کسی دھاندلی کی شہادتیں تلاش کر رہے ہیں کیونکہ ان دونوں انتخابات میں ڈیموکریٹ پارٹی کی جیت ہوئی تھی۔
وہ ووٹوں کی ایک بار پھر گنتی کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے ان ووٹوں کی دوبار گنتی ہو چکی ہے، ایک الیکشن کے فوراً بعد اور ایک بار گنتی کے مطالبے پر۔ جب ماریکوپا میں دوبارہ گنتی ہوئی تو اس کے نتائج پہلی بار کےنتائج کے عین مطابق تھے۔
آڈیٹر کچھ خاص قسم کی شہادتیں تلاش کر رہے ہیں، وہ دھاندلی کے کسی غیر معمولی طریقے کی تلاش میں ہیں۔ وہ ان ووٹوں کو الٹروائیلٹ لائٹ کے سامنے رکھ کر دیکھ رہے ہیں، اور ہائی ریزولوشن کیمروں سے ان کی تصاویر بنا رہے ہیں۔ وہ ان بیلٹ پیپروں کو تہہ دینے کے انداز کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ وہ ایسے بیلیٹ پیپروں کی موٹائی اور ان کے رنگ کو جانچنے کے علاوہ ان میں بانس کے ریشوں کو تلاش کر رہے ہیں۔
بانس کے ریشے؟
جی ہی وہ بیلیٹ پیپروں میں بانس کے فائبر یا ریشوں کو تلاش کر رہے ہیں۔
ایک رضاکار جان بریکے نے بتایا ہے کہ وہ یہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کہیں بیرون ملک بنے ہوئے جعلی ووٹ تو بیلٹ باکسوں میں نہیں ٹھونسے گئے ہیں۔
جان بریکے نے سی بی ایس ٹیلی ویژن سٹیشن کو بتایا کہ جنوب مشرقی ایشیا میں کاغذ بنانے کے لیے بانس کی لکڑی کا استعمال ہوتا ہے۔ جان بریکے کہتے ہیں کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ایسی دھاندلی کی کوئی حقیقت ہے لیکن تفتیش کار ہر پہلو کو دیکھنا چاہتے ہیں۔
سائبر ننجا کے تفتیش کار ڈاک میں بھیجے گئے بیلٹ کا رجسٹرڈ ووٹوں سے موازنہ کر رہے ہیں۔ اگر ایک ووٹر نے کئی بار ووٹ ڈالا ہوتا تو سسٹم اس کی نشاندہی کر چکا ہوتا۔
کیا سب کچھ قانونی ہے؟
ایریزونا میں ووٹوں کے آڈٹ کی منظوری ایریزونا کی سینیٹ نے دی ہے جس نے اپنے اختیارات کے تحت ڈالے گئے ووٹوں کو طلب کیا ہے۔
اس آڈٹ کے نتائج کو قانونی طور پر ماننا لازم نہیں ہے اور اس کی تحقیق کے نتائج 2020 کے صدارتی انتخاب کے نتائج پر کسی طرح اثر انداز نہیں ہو سکتے لہذا عدالتوں نے ان آڈیٹروں کو اپنے کچھ آپریشن کو جاری رکھنے کی اجازت دی ہے۔
البتہ عدالت نے ووٹروں کی پرائیویسی کے متاثر ہونے کے خدشے کے تحت آڈیٹروں کو پوسٹل بیلٹ پر کیے گئے دستخطوں کو ووٹر کے دستخطوں سے موازنہ کرنے سے روک دیا ہے۔
ایک سائبر ننجا کنٹریکر بیلٹ پیروں کو دیکھ رہا ہے
سائبر ننجا کا منصوبہ تھا کہ وہ ہر ووٹر کو فون کر کے اس سے تصدیق کرتا کہ کیا اس نے واقعی ووٹ ڈالا ہے لیکن محکمہ انصاف کی اس دھمکی کے بعد اس نے منصوبے کو ترک کر دیا کہ اگر ایسا ہوا تو کمپنی کے خلاف ووٹروں کو حراساں کرنے کے جرم میں عدالتی کارروائی ہو سکتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کیا کہنا ہے؟
ڈونلڈ ٹرمپ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
ڈونلڈ ٹرمپ کو خوب مزے آ رہے ہیں۔ وہ پریس ریلیزوں کے ذریعے ان آڈیٹروں کو داد تحسین پیش کر رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کے ایک گروپ کو مارا لاگو کلب میں بتایا: ’اگر یہ ہزاروں کی تعداد میں (جعلی) ووٹوں کو ڈھونڈ نکالتے ہیں تو مجھے ذرا بھی حیرانی نہیں ہو گی۔ یہ دھاندلی زدہ انتخاب تھا، ہر کوئی جانتا ہے۔ ہم اس پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ نے ریاست ایریزونا کے گورنر ڈاگ ڈوسی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان آڈیٹروں کو پولیس یا نیشنل گارڈز کے ذریعے تحفظ فراہم کرے۔
سیکورٹی کیوں؟
سکیورٹی کیوں؟ کیا انھیں کوئی خطرہ لاحق ہے؟ غالب امکان یہی ہے کہ انھیں ایسا کوئی خطرہ نہیں۔ عدالت کے حکم پر جاری ہونے والی دستاویزات کے مطابق سائبر ننجا کو ڈر ہے کہ سیاسی مخالفین کے ایجنٹ ان کی تفتیش میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور ان کو خطرہ ہے کہ بائیں بازو کے لوگ ووٹوں کے آڈٹ کو رکوانے کے لیے قریبی کیمیکل سٹوریج میں تخریبی کارروائی کر سکتے ہیں۔
ابھی تک تو کچھ ایسا ہوا نہیں ہے۔
ریپبلکن سیاستدان اس آڈٹ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
ایسے ریپبلکن جو ٹرمپ کو خوش رکھنا چاہتے ہیں وہ ووٹوں کے اس آڈٹ کا خیرمقدم کر رہے ہیں۔
ایلس سٹیفانک جو ایوان نمائندگان میں لز چینی کی جگہ لینے والی ہیں، ان کا کہنا ہے: ’ہم شفافیت چاہتے ہیں، ہم امریکی لوگوں کے لیے جوابات چاہتے ہیں۔‘
انھوں نے سوال کیا: ’ڈیموکریٹس کو ڈر کیوں لگ رہا ہے؟‘
ریپبلکن پارٹی کے حامیوں کی اکثریت یہ سمجھی ہے کہ ڈیموکریٹس نے 2020 کا الیکشن چرایا ہے۔ ریپبلکن پارٹی کے ایسے ممبران جو اس آڈٹ کے حق میں ہیں وہ سیاسی بنیادوں پر اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ جبکہ کچھ ریپبلکن جن میں ایریزونا کے ریپبلکن بھی شامل ہیں، انھیں اس آڈٹ کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں۔
فینیکس ایریا سے ریاستی سینیٹر پاول بوائیر نے نیویارک ٹائمز کو بتایا: ’اس سارے عمل سے ہم بے وقوف لگتے ہیں۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ سب کچھ اتنا مضحکہ خیز ہو گا۔‘
ڈیموکرٹیس اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
اگر سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو ڈیموکریٹس اس آڈٹ کو سیاسی شعبدہ بازی، پیسے اور وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں جس کا مقصد صرف سازشی نظریات کو تقویت دینا اور امریکی عوام کے انتخابی عمل پر اعتماد کو متزلزل کرنا ہے۔
باسکٹ بال کے ایک ایرنا کو ووٹوں کے آڈٹ کا مرکز بنایا گیا ہے
ڈیموکریٹس نے اس آڈٹ کو روکوانے کے لیے عدالت سے بھی رجوع کیا تھا۔ جج اس عمل کو روکنے پر تیار بھی تھے لیکن جج نے آڈٹ کو روکنے کے حکم کے نتیجے میں اٹھنے والے اضافی اخراجات پورا کرنے کے لیے ڈیموکریٹس کو ایک ملین ڈالر کی رقم ادا کرنے کا کہا جس پر ڈیموکریٹس نے اپنی درخواست واپس لے لی اور کہا وہ یہ رقم کسی بہتر جگہ پر خرچ کریں گے۔
جج نے سائبر ننجا کو حکم دیا کہ وہ اپنے آڈٹ کے ضوابط اور اس کے لیے ٹریننگ کے مینوئل عدالت میں پیش کریں۔ کمپنی نے ابتدائی طور پر اس کو یہ کہہ کر مخالفت کی کہ یہ ان کا تجارتی راز ہے۔
اگر یہ سارا عمل بے مقصد ہے تو پھر یہ کیوں ہو رہا ہے؟
جو یہ آڈٹ کر رہے ہیں کہ اس کا مقصد ان خدشات کا ازالہ کرنا ہے کہ 2020 کے انتخاب میں دھاندلی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آڈٹ کا نتیجہ یہ آتا ہے کہ انتخاب میں دھاندلی نہیں ہوئی تو وہ بھی ٹھیک ہے۔
سائبر ننجا کے ترجمان کین بینٹ نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا : ’اس کا مقصد نومبر کے انتخابی نتائج پر سوالات اٹھانا نہیں ہے۔ اس کا مقصد ان پہلوؤں کی نشاندہی کرنا ہے جہاں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔‘
البتہ ڈیموکریٹس اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس آڈٹ کا صرف اور صرف مقصد بائیڈن کی فتح پر شکوک و شبہات پیدا کرنا ہے اور ریاستی سطح پر ایسے قوانین بنانے کی راہ ہموار کرنا ہے جس سے ڈیموکریٹس کے ووٹروں کو حیلوں بہانوں سے انتخابی عمل سے باہر کیا جا سکے۔
اس آڈٹ کو رواں ہفتے کے اختتام تک مکمل ہو جانا چاہیے تھا لیکن ابھی تک صرف دس فیصد ووٹوں کا آڈٹ ہو پایا ہے۔ ووٹوں کے اس آڈٹ کو اب روکنا پڑے گا کیونکہ جس باسکٹ بال ایرینا میں یہ آڈٹ ہو رہا ہے وہاں ہائی سکولوں کی گریجویشن تقریبات ہونی ہیں۔
منتظمین کا کہنا ہےکہ یہ سارا عمل جولائی تک مکمل ہو پائے گا۔
اسی دوران ریاست ورجنیا میں گورنر کے لیے ریپبلکن امیدوار کی نامزدگی میں پہلے سے کئی دن زیادہ لگے کیونکہ کئی امیدوارں نے بیلٹ کی حفاظت اور ووٹوں کی گنتی کرنے والوں کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھائے۔
ایریزونا میں جاری ووٹوں کے آڈٹ کی حالیہ الیکشن کے بارے میں کوئی زیادہ اہمیت نہ ہو، لیکن یہ آڈٹ امریکی جہموریت کے بارے میں بدلتے ہوئے رویوں کی نشاندہی کر رہا ہے جس میں ہر الیکشن کے نتیجے پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا ایک لامتناعی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
Comments are closed.