ایران کے سول جوہری پروگرام پر عائد امریکی پابندیوں میں استثنیٰ بحال
امریکہ نے ایران کے سول جوہری پروگرام پر عائد پابندیوں پر دیا گیا وہ استثنیٰ بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ختم کر دیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی جانب سے یہ قدم 2015 میں ہونے والے ایران جوہری معاہدے کی جانب واپسی کا پہلا قدم ہے۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2018 میں امریکہ کو ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے سے الگ کر لیا تھا اور ایران پر پابندیاں بحال کر دی تھیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کے مطابق حالیہ قدم صرف ایران کے سویلین جوہری پروگرام کے لیے استثنیٰ ہے جس کا اطلاق ایران پر عائد دیگر پابندیوں پر نہیں ہو گا۔
اس استثنیٰ کے تحت غیر ملکی کمپنیوں اور ممالک کو ایران کے سول جوہری پروگرام میں عدم پھیلاؤ پر مبنی کسی قسم کی معاونت پر امریکی پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
امریکی استثنیٰ کا کیا مقصد ہے؟
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن کی جانب سے ایک رپورٹ کانگریس بھجوائی ہے جس میں اس استثیٰ کی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔
روئٹرز کے مطابق اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس استثنیٰ سے ایران جوہری معاہدے کی بحالی میں مدد ملے گی اور اس بات کو یقینی بنایا جا سکے گا کہ ایران ان وعدوں پر عمل درآمد کر سکے جو اس نے معاہدے میں کیے تھے۔
ساتھ ہی ساتھ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس استثنیٰ سے ایران کی جوہری سرگرمیوں کو کم کرنے اور امریکہ کے مقاصد کو حاصل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
رپورٹ کے مطابق استثنیٰ کا مقصد ہرگز یہ نہیں لیا جانا چاہیے کہ ایسا ایران سے کسی قسم کے وعدے کے نتیجے میں کیا گیا۔
ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ اس استثنیٰ کا بنیادی مقصد 2015 کے ایران جوہری معاہدے کی بحالی کو ممکن بنانا ہے۔
’یہ استثنیٰ ویانا میں ایران کے جوہری پروگرام پر کنٹرول کے مذاکرات کے تحت کسی بھی نئے معاہدے کے لیے ضروری ہے۔‘
’اس کے بغیر ایران کے جوہری پروگرام کی تکنیکی تفصیلات اور جوہری اسلحے سے متعلق کسی تیسرے فریق سے بات چیت ممکن نہیں۔‘
واضح رہے کہ ویانا میں ہونے والے ایران جوہری مذاکرات سے قبل گذشتہ ہفتے امریکی محکمہ خارجہ کے سینیئر اہلکار نے بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ اہم سیاسی فیصلے لینے کا وقت آ چکا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’ہم ایران پر عائد پابندیوں سے کسی قسم کی چھوٹ نہیں دے رہے اور نا ہی دیں گے جب تک ایران جوہری معاہدے کے تحت کی جانے والی یقین دہانیوں پر عمل درآمد نہیں کرتا۔ ہم نے وہی کیا جو گذشتہ انتظامیہ نے کیا یعنی اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کو اجازت دی کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور حفاطتی خدشات کا سدباب کر سکیں۔‘
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس
’یہ مثبت قدم ہے‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گذشتہ سال اپریل سے ویانا میں امریکہ اور ایران کے درمیان بات چیت کے آٹھ ادوار ہوئے ہیں۔ اب تک یہ واضح نہیں کہ اگلا دور کب ہو گا لیکن حالیہ پیش رفت کے بعد یہ جلد ہو سکتا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق ماہرین کا ماننا ہے کہ ایران جوہری معاہدے، جسے جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن کا نام دیا گیا تھا، پر مذاکرات آئندہ ہفتے دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں جن میں پی فائیو پلس ون ممالک (اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان، امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کے علاوہ جرمنی) شامل ہوں گے۔
اٹلانٹک کونسل کی باربرا سلیون امورِ ایران کی ماہر ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ امریکی استثنی ایک مثبت قدم ہے۔ اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ قدم جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ضروری تھا اور یہ اچھی بات ہے کہ یہ کر لیا گیا ہے۔
ان کے مطابق گذشتہ امریکی انتظامیہ (یعنی صدر ڈونلڈ ٹرمپ) کی جانب سے پابندیاں انتہائی احمقانہ قدم تھا۔
یہ بھی پڑھیے
ایران کے ساتھ پرانے جوہری معاہدے میں کیا تھا؟
سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں یہ معاہدہ پی فائیو پلس ون (اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان، امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کے علاوہ جرمنی) اور ایران کے درمیان ہوا تھا۔
اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنی یورینیم افزودگی اور ذخیرہ اندوزی پر پابندیاں قبول کرنے، متعدد جوہری مقامات پر تنصیبات کو بند کرنے یا ان میں ترمیم کرنے اور بین الاقوامی جوہری معائنہ کاروں کو تنصیبات کے دوروں کی اجازت دینے پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے بدلے میں ایران پر سے کئی بین الاقوامی مالیاتی پابندیاں ہٹا دی گئیں تھیں۔
پی فائیو پلس ون کا خیال تھا کہ یہ معاہدہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روک دے گا۔ ایران کو امید تھی کہ پابندیوں کے خاتمے سے اس کی مشکلات کی شکار معیشت کو بڑے پیمانے پر فروغ ملے گا۔
طویل مذاکرات کے بعد یہ معاہدہ جنوری 2016 میں طے پایا تھا۔
معاہدہ ختم کیوں ہوا؟
اس سوال کا مختصر جواب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔
اس معاہدے پر باراک اوباما کے دورِ صدارت میں دستخط کیے گئے تھے، لیکن ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس پہنچنے سے بہت پہلے واضح کر دیا تھا کہ ان کے خیال میں یہ ’بدترین ڈیل‘ ہے اور بار بار اسے ’خوفناک‘ اور ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتے ہوئے طنز کیا۔
ان کا خیال تھا کہ ایران کی جوہری سرگرمیوں پر کنٹرول بہت کمزور ہے، اور اس معاہدے میں ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر پابندیاں بھی شامل ہونی چاہیے تھیں اور یہ کہ معاہدے کی شرائط زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہیں گی۔
صدر ٹرمپ نے مئی 2018 میں امریکہ کو اس معاہدے سے نکال لیا تھا اور ایران پر دوبارہ پابندیاں لگا دی تھیں۔
اس کے جواب میں ایران نے یورینیم کی افزودگی اس مقررہ حد سے زیادہ کرنا شروع کی جس کی اسے معاہدے میں اجازت تھی اور بین الاقوامی معائنہ کاروں کے ساتھ اپنا تعاون کم کر دیا۔
Comments are closed.