- مصنف, فرینک گارڈنر
- عہدہ, بی بی سی سکیورٹی نامہ نگار
- 28 منٹ قبل
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے سنیچر کی رات کو داغے گئے 99 فیصد میزائل اور ڈرون اپنے اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور انھیں اسرائیلی ڈیفنس سسٹم نے راستے میں ہی روک لیا۔ ایران کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ حملہ دو ہفتے قبل شام میں ایک ایرانی سفارتی کمپاؤنڈ پر ہونے والے مہلک حملے کے جواب میں کیا گیا تھا۔یہاں اب جو سب سے اہم اور غور طلب سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ صورت حال یہاں سے آگے کیا شکل اختیار کرتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ اسرائیل ایران کے اس حملے کا جواب دینے کا فیصلہ کیسے کرتا ہے۔مشرق وسطیٰ اور خطے سے باہر کے دیگر ممالک، بشمول ان ممالک کے جو ایرانی حکومت کو سخت ناپسند کرتے ہیں، نے ’تحمل‘ پر زور دیا ہے۔ایران کا موقف ان خطوط پر ہے کہ ’حساب اور معاملہ اب برابر ہے، یہ بات یہاں ختم ہو جانی چاہیے، اب ہم پر جوابی وار نہ ہو اگر ہوا تو ہم آپ پر اس سے زیادہ زور دار حملہ کریں گے جسے آپ روک نہیں سکیں گے۔‘
لیکن، اسرائیل پہلے ہی ’اہم ردعمل یا جوابی کارروائی‘ کے عزم کا اظہار کر چکا ہے اور اس کی حکومت کو اکثر اسرائیلی تاریخ میں سب سے زیادہ سخت گیر کہا جاتا رہا ہے۔اس نے سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کا جواب چند گھنٹوں کے اندر دیا اور پھر اگلے چھ ماہ غزہ کی پٹی کو تباہ کرنے میں گزارے۔اسرائیل کی جنگی کابینہ کا ایران کے اس براہِ راست حملے کو جواب کے بغیر چھوڑنے کا امکان کم ہی نظر آتا ہے، تاہم اس کا اثر زمینی سطح پر محدود نہیں ہو گا۔
تو اسرائیلی حکمتِ علمی کیا ہو گی؟
یہ خطے میں اپنے پڑوسیوں کی بات سن سکتا ہے اور اس پر عمل بھی کر سکتا ہے، جسے اس صورتحال میں ایک حکمتِ عملی کے تحت کیا جانے والا ’صبر‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اسرائیل جواب دینے سے باز رہے گا اور اس کے بجائے خطے میں ایران کے دیگر اتحادیوں جیسے لبنان میں حزب اللہ یا شام میں اہم مقامات کو نشانہ بنانا جاری رکھ سکتا ہے جیسا کہ وہ برسوں سے کر رہا ہے۔اسرائیل اسی طرح کے، احتیاط سے ترتیب دیے گئے، طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل حملوں کا ایک سلسلہ شروع کر سکتا ہے، جس میں صرف ان میزائل اڈوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے جہاں سے ایران نے گذشتہ رات حملہ کیا تھا۔،تصویر کا ذریعہReutersایران اب بھی اسے کشیدگی میں اضافے کے طور پر دیکھے گا کیونکہ یہ پہلا موقع ہوگا جب اسرائیل خطے میں مخالف ملیشیا کو نشانہ بنانے کے بجائے ایران پر براہ راست حملہ کیا ہے۔یا اسرائیل اس کشیدگی کو مزید بڑھاوا دیتے ہوئے ایران کے طاقتور فوجی دستے پاسداران انقلاب سے تعلق رکھنے والے اڈوں، تربیتی کیمپوں اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز کو اپنے ممکنہ ردعمل کے لیے نشانہ بنا سکتا ہے۔دونوں آپشنز میں سے کسی ایک پر بھی ایران کی طرف سے مزید جوابی کارروائی کا خطرہ ہے۔یہاں اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ امریکہ کو اس جنگ میں گھسیٹے گا، جس کے نتیجے میں خطے میں ایران اور امریکی افواج کے درمیان باضابطہ طور پر ایک جنگ چھڑ جائے۔امریکہ کی تمام چھ خلیجی عرب ریاستوں کے علاوہ شام، عراق اور اردن میں فوجی تنصیبات ہیں۔،تصویر کا ذریعہReutersیہ سب ایران کے بیلسٹک اور دیگر میزائلوں کے بڑے ذخیرے کا ہدف بن سکتی ہیں جو اس نے بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود گزشتہ برسوں میں تیار کیے ہیں۔ ایران بھی کچھ ایسا کر سکتا ہے جس کی اس نے طویل عرصے سے صرف دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر حملہ کیا گیا تو وہ سٹریٹجک طور پر اہم آبنائے ہرمز کو بند کر دے گا۔ بارودی سرنگوں، ڈرونز اور جنگی طیاروں کا استعمال کر کے، دنیا کی تیل کی سپلائی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ بند کر سکتا ہے۔یہ وہ ڈراؤنا خواب ہے، جو پورے خطے میں امریکہ اور خلیجی ریاستوں کو جنگ میں گھسیٹ سکتا ہے، جس سے بچنے کے لیے اب بہت سی حکومتیں 24 گھنٹے سوچ و بچار کرنے میں مصروف ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.