ایران پر براہ راست حملہ یا پاسداران انقلاب کے کمانڈروں کو نشانہ بنانا: فوجی اڈے پر ڈرون حملے کے بعد امریکہ کیا سوچ رہا ہے؟
- مصنف, فرینک گارڈنر
- عہدہ, بی بی سی سیکورٹی نامہ نگار
- 2 گھنٹے قبل
واشنگٹن کو بظاہر ایک مشکل فیصلے کا سامنا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے اتوار کو اُردن میں امریکی فوجی اڈے پر ہونے والے حملے پر سخت ردعمل دینے کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن دوسری جانب امریکہ کے لیے اپنی قوتِ مزاحمت اور لڑائی بڑھانے کے درمیان صحیح توازن تلاش کرنا ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔امریکہ کے لیے مشکل یہ ہے کہ اگر وہ کوئی فیصلہ کُن کارروائی کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اس سے کمزوری کا پیغام جانے کا خطرہ ہو سکتا ہے اور ایسی صورتحال مزید حملوں کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ اور اگر امریکہ کوئی سخت کارروائی کرتا ہے تو یہ ایران اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے ایک شدید ردعمل کو متحرک کر سکتی ہے۔لہذا امریکہ کے پاس اس کا حل یا آپشنز کیا ہیں؟ اور یہ آپشنز کتنے قابل عمل ہیں؟
امریکہ کے پاس پہلے سے ہی بہت سی ’دستیاب‘ عسکری آپشنز موجود ہیں جن میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ اس نوعیت کے حل یا تجاویز امریکی محکمہ دفاع سی آئی اے اور نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی انٹیلیجنس معلومات کی بنا پر تیار کرتا ہے۔ ان میں سے جس بھی آپشن کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا تو اسے امریکی قومی سلامتی کونسل اور پالیسی سازوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، جس کے بعد صدر حتمی فیصلہ کریں گے اور منتخب کردہ آپشن پر دستخط کرتے ہوئے اس کی توثیق کریں گے۔
آپشن 1۔ ایران کے اتحادیوں کے اڈوں اور کمانڈروں پر حملے
،تصویر کا ذریعہReutersامریکہ کہ پاس یہ سب سے واضح انتخاب ہے اور ماضی میں اس کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔عراق اور شام میں بڑی تعداد میں ایسے اڈے، ہتھیاروں کے ڈپو اور تربیتی کیمپ موجود ہیں جن کا تعلق ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں سے ہے۔ ان ملیشیاؤں کو ایران کی پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے ذریعے تربیت، اسلحہ اور مالی امداد حاصل ہوتی ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ ان کو ہدایات بھی دیتے ہوں۔امریکہ جانتا ہے کہ وہ کون ہیں اور کہاں ہیں۔ یہ آسانی سے ان اڈوں پر گائیڈڈ میزائل حملے کر سکتا ہے، لیکن ماضی میں امریکہ کی جانب سے کی جانے والی اس نوعیت کی کارروائیاں اب تک اِن جنگجو گروہوں کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔ گذشتہ برس سات اکتوبر کے بعد سے ان ملیشیاؤں نے خطے میں امریکی اڈوں پر 170 سے زیادہ حملے کیے ہیں۔اُردن میں امریکی فوجی اڈے پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری عراق کے ایک ’اسلامی مزاحمت‘ کہلانے والے ملیشیا گروہ نے قبول کی ہے۔یہ اصطلاح ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کی ایک بڑی تعداد کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جن میں سے کچھ اس سے قبل خطے میں امریکہ کی طرح اپنے مشترکہ دشمن یعنی شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کے خلاف لڑ چکے ہیں۔ ان کے اور ایران کے مشترکہ مقاصد ہیں، یعنی عراق اور شام سے امریکی فوج کو بھگانا اور امریکہ کو اسرائیل کی فوجی حمایت پر سزا دینا۔
آپشن 2: ایران پر حملہ
اگر امریکہ کی جانب سے اس آپشن کا استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے خطے میں کشیدگی میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہو گا اور یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے امریکہ معمولی قرار دے۔ اس آپشن کے استعمال کا امکان بہت کم ہے، لیکن یہ ناقابل فہم نہیں ہے کہ امریکہ کی جوابی کارروائی میں ایران کی سرحدی خودمختاری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اہداف کو نشانہ بنانا شامل ہو۔ نہ واشنگٹن اور نہ ہی تہران ایک بھرپور اور مکمل جنگ میں پڑنا چاہتے ہیں اور دونوں نے ماضی میں اپنے بیانات میں بھی اس کا عندیہ دیا ہے۔ ایران کے ردعمل میں اقتصادی طور پر اہم آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی کوشش بھی شامل ہو سکتی ہے، جس کے ذریعے دنیا کے 20 فیصد تیل اور گیس کی آمد و رفت ہوتی ہے۔ اس کا عالمی معیشتوں پر تباہ کن اثر پڑے گا، قیمتیں بڑھیں گی اور نومبر میں صدر بائیڈن کے دوبارہ انتخاب کے امکانات کو اس کارروائی سے تقریباً یقینی طور پر نقصان پہنچے گا۔اس کا ایک متبادل حل یہ ہے کہ عراق اور شام میں پاسداران انقلاب کے سینئیر کمانڈروں کو نشانہ بنایا جائے۔ اس کی ایک قابل ذکر مثال موجود ہے جب چار سال قبل سنہ 2020 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ڈرون حملے کا حکم دیا تھا جس میں بغداد میں پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے سینیئر کمانڈر قاسم سلیمانی کو ہلاک کیا گیا تھا۔ لیکن اس نوعیت کا آپشن استعمال کرنے سے تہران کی طرف سے ایک خطرناک ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ،تصویر کا ذریعہReuters
آپشن 3۔ امریکہ کوئی ردعمل نہ دے
امریکی اسٹیبلشمنٹ میں ایسے لوگ ہیں جو یہ دلیل دیتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں موجودہ کشیدگی کے پیش نظر، واشنگٹن کے لیے ایک ایسے وقت میں جب رواں برس امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونے ہیں، ایرانی مفادات کو نشانہ بنانا غیر ذمہ دارانہ عمل ہو گا۔ سینٹ کام، امریکی محکمہ دفاع کا وہ شعبہ ہے جو مشرق وسطیٰ کے معاملات کو دیکھتا ہے اور وہ پہلے ہی بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں بحری جہازوں پر حوثیوں کے حملوں کا بھرپور جواب دینے میں مصروف ہے۔ یہ خطے میں موجود امریکی اتحادیوں کی طرف سے مشرق وسطیٰ کے تنازع کو مزید نہ بڑھانے کی درخواستوں پر بھی غور کرے گا۔لیکن یہ نظریہ وہ لوگ رد کر سکتے ہیں جو کہتے ہیں کہ امریکہ کی ڈیٹرنس کی پالیسی بظاہر ناکام ہو چکی ہے، اور یہ کہ واشنگٹن کے اڈوں پر حملہ کرنے والوں کو سخت جواب دینے میں ہچکچاہٹ نے حملوں کو تیز کرنے میں ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ لیکن اس سب صورتحال میں ایک عنصر وقت کا بھی ہے، کچھ لوگ بحث کریں گے کہ امریکی فوج کا سخت ردعمل طویل مدت میں ضروری یا فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔پہلا یہ کہ ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کے حملے غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ سے پہلے کے ہیں لیکن ان میں سات اکتوبر کے بعد سے ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ ایک بار جب غزہ پر اسرائیل کا حملہ ختم ہو جائے گا تو خطے میں کشیدگی بہت حد تک کم ہو سکتی ہے۔ البتہ اسرائیل نے خبردار کیا ہے کہ اس میں ابھی کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ واشنگٹن میں کچھ لوگوں کی طرف سے امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں اپنے عسکری موجودگی کو کم کرنے کے لیے شور ڈالا جا رہا ہے۔ جب صدر ٹرمپ اپنے عہدے پر تھے تو اس وقت ان کے فوجی اور انٹیلیجنس سربراہوں نے انھیں اس بات پر قائل کیا تھا کہ وہ شام سے تمام امریکی افواج کو نہ نکالیں، جہاں وہ کرد فورسز کی داعش کی واپسی روکنے میں مدد کر رہے تھے۔اس بات کا قوی امکان ہے کہ اگر ٹرمپ ایک سال کے عرصے میں وائٹ ہاؤس واپس آ جائیں اور اگر وہ عراق اور شام میں امریکی موجودگی کو کم کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ایران کسی بھی طرح اپنا راستہ بنا لے گا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.