- مصنف, کریسٹی کوونی
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- ایک گھنٹہ قبل
امریکہ نے ایران کی جانب سے ممکنہ حملے کے خطرے کے پیش نظر اسرائیل میں موجود اپنے سفارتکاروں پر سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔امریکی سفارتخانے نے کہا ہے کہ انھوں نے اسرائیل میں موجود اپنے سفارتی عملے کو تنبیہ کی ہے کہ وہ یروشلم اور تل ابیب کے علاقوں سے باہر سفر کرنے سے گریز کریں۔یاد رہے کہ ایران نے 11 روز قبل (یکم اپریل) شام کے دارالحکومت دمشق میں واقع اپنے سفارتخانے پر ہونے والے ایک حملے کا الزام اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے بڑی جوابی کارروائی کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ اس حملے میں سینیئر ایرانی کمانڈر سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔دو امریکی عہدیداروں نے ’سی بی ایس‘ نیوز کو بتایا ہے کہ ایران کا ممکنہ حملہ جلد ہو سکتا ہے۔ ایک امریکی عہدیدار نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کے پاس موجود انٹیلیجنس اطلاعات کے مطابق اس ممکنہ ایرانی حملے میں 100 سے زیادہ ڈرون، درجنوں کروز میزائل اور شاید بیلسٹک میزائل بھی استعمال ہو سکتے ہیں جن کے ذریعے اسرائیل میں فوجی اہداف کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
اسرائیل نے یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن عام خیال یہی ہے کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ایران غزہ میں اسرائیل سے لڑنے والے مسلح فلسطینی گروپ حماس کی حمایت کرتا ہے جبکہ اس کے ساتھ پورے خطے میں سرگرم مختلف پراکسی گروپس، جیسا کہ لبنان میں حزب اللہ، اکثر اسرائیلی اہداف کے خلاف حملے کرتے رہتے ہیں۔دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے میں ہلاک ہونے والوں میں شام اور لبنان میں ایران کی ایلیٹ قدس فورس کے ایک سیینئر کمانڈر کے علاوہ دیگر عسکری شخصیات بھی شامل تھیں۔یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا تھا جب غزہ میں جاری جنگ کو پورے خطے میں پھیلنے سے روکنے کے لیے عالمی سطح پر سفارتی کوششیں جاری تھیں۔بدھ کے روز بات کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے خبردار کیا کہ (قونصل خانے پر حملے کے تناظر میں) ایران ایک ’بڑے حملے‘ کی دھمکی دے رہا ہے تاہم انھوں نے اس موقع پر اسرائیل کا ہر طرح سے ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
یہ واضح نہیں ہے کہ ایران کی جانب سے کیے جانے والا ممکنہ جوابی حملے براہ راست ایران کرے گا یا وہ اس کام کے لیے اپنی پراکسی (جیسا کہ حزب اللہ) کو استعمال کرے گا۔گذشتہ اتوار کو ایک ایرانی عہدیدار نے خبردار کیا تھا کہ دنیا بھر میں موجود اسرائیل کے سفارتخانے ’اب محفوظ نہیں ہیں‘۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ممکنہ طور پر کسی اسرائیلی قونصل خانے کی عمارت ایران کا ممکنہ ہدف ہو سکتی ہے۔اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے حال ہی میں اپنے امریکی ہم منصب سے بات کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ ’اسرائیلی سرزمین پر کسی بھی براہ راست ایرانی حملے‘ کے نتیجے میں مناسب ردعمل دینے کی ضرورت ہو گی۔جمعرات کو سفری پابندیوں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا تھا کہ وہ یہ تفصیلات فراہم نہیں کریں گے کن جائزوں کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاہم انھوں نے مزید کہا کہ ’واضح طور پر ہم مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر اسرائیل میں درپیش خطرے کی صورتحال کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔‘برطانیہ کے دفتر خارجہ نے بھی اسرائیل کے لیے اپنے سفری ہدایت نامے کو اپ ڈیٹ کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’ایران کی جانب سے اسرائیلی سرزمین پر حملے کے امکان کا خدشہ بڑھ گیا ہے، اور یہ کہ اس طرح کا ممکنہ حملہ وسیع تر کشیدگی کو جنم دے سکتا ہے۔‘اسی طرح فرانس نے اپنے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ’آنے والے دنوں میں ایران، لبنان، اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کا سفر کرنے سے گریز کریں۔‘ جبکہ ایران میں موجود فرانسیسی سفارتکاروں کے اہلخانہ کو واپس بلایا جا رہا ہے۔جرمن ایئر لائن ’لیفتھیزا‘ نے ایرانی دارالحکومت تہران کے لیے اپنی پروازوں کی معطلی کے دورانیے میں مزید ایک ہفتے کی توسیع کر دی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.