- مصنف, باران عباسی
- عہدہ, بی بی سی فارسی
- 27 منٹ قبل
ایران نے سوموار کو شام کے دارالحکومت دمشق میں اپنے سفارتخانے پر ہونے والے فضائی حملے کے جواب میں شدید ردعمل دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس حملے میں پاسدارانِ انقلاب کے سات اراکین سمیت مجموعی طور پر 13 افراد ہلاک ہوئے جن میں چھ شامی شہری بھی شامل ہیں۔ہلاک ہونے والوں میں پاسداران انقلاب کی بین الاقوامی شاخ ’قدس فورس‘ کے اہم اور اعلیٰ کمانڈر بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی بھی شامل ہیں۔اس حملے پر اسرائیل کی جانب سے اب تک کوئی باقاعدہ بیان سامنے نہیں آیا تاہم ایران اور شام نے دمشق میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری اسرائیل پر ہی عائد کی ہے۔لندن سکول آف اکنامکس میں بین الاقوامی اُمور کے پروفیسر فواز جرجیس کا کہنا ہے کہ ’یہ صرف ایرانی ریاست پر حملہ نہیں تھا بلکہ قدس فورس کی قیادت پر بھی حملہ تھا، یہ ایک ایسی طاقت (ایران) کے لیے بڑا دھچکہ ہے جو شام اور لبنان میں حزب اللہ کو اسلحہ اور ٹیکنالوجی فراہم کرنے کا کام کرتی ہے۔‘
دمشق میں ہونے والے فضائی حملے کے بعد ایرانی حکومت کے اعلیٰ عہدیداران کی جانب سے شدید تنقید سامنے آئی اور اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کی دھمکیاں بھی دی گئی ہیں۔ایران کے رہبر اعلی علی خامنہ ای نے خبردار کیا ہے کہ ’ہم (ایران) بھی ملتی جلتی کارروائی کریں گے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو افسوس ہو گا۔‘ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے اس حملے کو ’غیر انسانی، جارحانہ اور بدترین فعل‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس کا جواب ضرور دیا جائے گا۔‘ اُدھر ایران کے وزیر خارجہ نے اپنے شامی ہم منصب سے فون پر بات چیت میں دمشق میں ہونے والے حملے کو ’تمام بین الاقوامی قوانین اور ضوابط کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔‘ایرانی وزیر خارجہ نے براہ راست اسرائیل پر الزام لگایا ہے اور وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر اُن کا بیان موجود ہے کہ ’اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو اپنا ذہنی توازن مکمل طور پر کھو چکے ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
- دمشق میں ’اسرائیلی فضائی حملے‘ میں ہلاک ہونے والے ایرانی جنرل زاہدی کون تھے اور پاسداران انقلاب کی قدس فورس کیا ہے؟2 اپريل 2024
- ایرانیوں کے ہیرو، امریکہ اور اسرائیل کے لیے ولن: جنرل قاسم سلیمانی کون تھے؟3 جنوری 2020
- اسرائیل کے خلاف لڑائی میں ’حصہ ڈالنے کو تیار‘ حزب اللہ کیسے وجود میں آئی اور اس کی عسکری قوت کتنی ہے؟18 اکتوبر 2023
ان کا ماننا ہے کہ ’ایران میں درپردہ طور پر برسراقتدار قوتوں کے درمیان ایک کشمکش ضرور ہو گی جن میں سے چند کا خیال ہو گا کہ ایران کو اسرائیلی جارحیت روکنے کے لیے اپنی جوہری طاقت کو قائم کرنا ہو گا جبکہ چند ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اسرائیل اور اس کی عسکری تنصیبات کیخلاف براہ راست حملوں کی تجویز دیں گے۔‘یوسف عزیزی نے بی بی سی کو بتایا کہ ایران کے سرکاری میڈیا پر انٹرویوز اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’سٹریٹجک صبر کی پالیسی اپنائے جانے کا امکان زیادہ ہے۔‘تو پھر اگر کسی بڑی عسکری کارروائی کا امکان نہیں ہے تو ایران کے پاس جوابی ردعمل کے لیے اور کون سے راستے موجود ہیں؟اسرائیلی انسٹیٹیوٹ برائے سائبر پالیسی سٹڈیز کے ٹال پاول کا کہنا ہے کہ ’ہم ایران کی جانب سے بدلہ لینے کے لیے سائبر سپیس کے استعمال کو خارج الامکان قرار نہیں دے سکتے جس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی پر سائبر حملے کیے جائیں اور خفیہ معلومات چرانے کی کوشش کی جائے۔‘’ہم جانتے ہیں کہ گزشتہ 15 سال سے ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک خفیہ سائبر جنگ جاری ہے اور اس معاملے میں بھی اس جنگ کا ایک اور محاذ کھل سکتا ہے۔‘لیکن جوابی کارروائی کا فیصلہ ایران اور خصوصا رپبر اعلی کو کرنا ہو گا کہ ان کا ملک کیا قدم اٹھاتا ہے۔ فی الحال ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی کچھ زیادہ نہیں بتا رہے۔ انھوں نے خبردار ضرور کیا ہے کہ ’ایران جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے اور یہ فیصلہ کرے گا کہ کس قسم کا جواب اور کس قسم کی سزا دینی ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.