ایران، سعودی عرب تعلقات: برطانوی اخبار کا دونوں ملکوں میں ‘براہ راست بات چیت‘ شروع ہونے کا دعویٰ
برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران اور سعودی عرب کے ’سینیئر‘ عہدیداروں کے مابین دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری لانے کی کوششوں کے سلسلے میں ’براہ راست بات چیت‘ ہوئی ہے۔
یہ بات چیت ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہونے کے پانچ سال بعد ہوئی ہے۔
رواں ماہ بغداد میں ہونے والے ان ’مذاکرات‘ کو دونوں ممالک کے درمیان سنہ 2016 کے بعد سے ’پہلے بڑے سیاسی مذاکرات‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
فنانشل ٹائمز نے ایک عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ نو اپریل کو بغداد میں ہونے والے مذاکرات کے پہلے دور میں حوثی باغیوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں سے متعلق بات چیت ہوئی جو ’مثبت‘ رہی۔
اس عہدیدار نے نام ظاہر کیے بغیر کہا ہے کہ سعودی وفد کی سربراہی خالد بن علی الحمیدان کر رہے ہیں جو ملک کی انٹیلیجنس سروس کے سربراہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق آئندہ ہفتے ان مذاکرات کا دوسرا دور طے ہونا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
اخبار کے مطابق یہ بات چیت کروانے میں عراقی وزیراعظم مصطفیٰ کاظمی نے ’سہولت کار کا کردار‘ ادا کیا ہے۔ عراقی وزیراعظم نے گذشتہ ماہ ریاض میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کی تھی۔
عہدیدار نے بتایا کہ ’یہ بات چیت اس لیے تیزی سے آگے بڑھائی جا رہی ہے کیونکہ ایک طرف امریکہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر بات چیت تیزی سے آگے بڑھانا چاہتا ہے اور دوسری جانب سعودی عرب پر حوثی باغیوں کے حملے بھی جاری ہیں۔‘
برطانوی اخبار کے مطابق ایک اور عہدیدار نے سعودی عرب اور ایران کے مابین ہونے والی بات چیت کے بارے میں کہا: ‘دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش میں عراقی وزیرِ اعظم کے ایرانی نظام کے اندر اچھے تعلقات کا بھی کردار ہے۔‘
’نئی بات یہ ہے کہ اب وہ سعودی عرب سے متعلق بھی اسی کردار کا حامل ہے۔ یہ اچھا ہے کہ عراق یہ کردار ادا کر رہا ہے لیکن ہم ابھی بھی ابتدائی مراحل میں ہیں۔‘
سعودی عہدیدار کی جانب سے تردید
یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب امریکی صدر جو بائیڈن نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کی ہے جس پر ایران نے سنہ 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر دستخط کیے تھے۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق سعودی عرب یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف جنگ ختم کرنا چاہتا ہے جنھوں نے حالیہ دنوں میں سعودی شہروں اور تیل کی تنصیبات پر اپنے حملے تیز کر دیے ہیں۔
یاد رہے کہ حوثی فورسز نے رواں سال سعودی عرب کے علاقوں پر بارودی مواد سے لیس درجنوں راکٹ اور ڈرون حملے کیے تھے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بھی ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جن کا مقصد بائیڈن حکومت کو اپنی جانب راغب کرنا ہے۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد سے بائیڈن نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لینے اور یمن میں چھ سالہ جنگ کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
فنانشل ٹائمز نے اپنی رپورٹ کے ایک اور حصے میں کہا ہے کہ ایک سینیئر سعودی عہدیدار نے ایران کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت کی تردید کی ہے اور نہ ہی ایرانی اور نہ ہی عراقی حکومتوں نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ کیا ہے۔
جبکہ ایک دوسرے سینیئر عراقی اہلکار اور غیر ملکی سفارتکار نے ان مذاکرات کی تصدیق کی ہے۔ عراقی عہدیدار نے مزید کہا ہے کہ عراق نے ایران اور مصر اور ایران اور اردن کے مابین ’مواصلاتی چینلز‘ کی سہولت بھی فراہم کی ہے۔
‘وزیر اعظم ملک کو خطے میں مخالف طاقتوں کے مابین پل کا کردار ادا کرنے کے لیے ذاتی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات عراق کے مفاد میں ہے کہ وہ یہ کردار ادا کر سکے۔‘
جنوری 2016 میں تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملے کے بعد دو علاقائی حریفوں، سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں کشیدگی عروج پر چلی گئی تھی۔
ممتاز شیعہ عالم دین شیخ نمر النمر کی پھانسی کے بعد مظاہرین کے ایک گروپ نے سعودی سفارت خانے کی عمارت پر حملہ کیا اور اسے نذر آتش کر دیا۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر خطے کو غیر مستحکم کرنے کا الزام عائد کیا اور پھر سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
دونوں ممالک کے مابین تناؤ میں اضافہ اس وقت ہوا جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا اور اسلامی جمہوریہ ایران پر پابندیاں عائد کر دیں۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی مہم کے کڑے حامی تھے۔ تاہم ستمبر 2019 میں ملک کی تیل کی سب سے اہم تنصیبات پر میزائل اور ڈرون حملوں نے سعودی خام تیل کے آدھے حصے کی پیداوار میں عارضی طور پر خلل پیدا کر دیا تھا۔
حوثیوں نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی لیکن امریکی اور سعودی عہدیداروں نے ایران کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ واشنگٹن اور ریاض نے ایران پر میزائل حملوں میں ملوث ہونے اور متحدہ عرب امارات میں حوثیوں کو سمگل کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق ایران، جو اپنے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروہوں کی پشت پناہی کرتا ہے، اس وقت علاقائی تناؤ کا شکار ہے۔
خاص طور پر جب جنوری 2020 میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ایک حملے میں ہلاک کیا گیا تھا۔
اس اقدام نے امریکہ اور ایران کو جنگ کے دہانے پر دھکیل دیا تھا اور اگر تہران اور واشنگٹن کے مابین تعلقات مزید بگڑتے ہیں تو عراق، جو تقریباً دو ہزار امریکی فوجیوں کی میزبانی کرتا ہے، ایک بار پھر میدان جنگ بن سکتا ہے۔
تہران میں سعودی سفارتخانے میں آگ لگنے کا واقعہ
ماضی میں ایران سعودی تعلقات
سنہ 2003 میں صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے ایران اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ سیاسی اور تجارتی تعلقات کو مضبوط بنا رہا ہے۔
جو بائیڈن کے انتخاب کے ساتھ ہی سعودی ایران مذاکرات ’خطے میں پیش رفت کے آغاز‘ کی علامت ہے۔
جو بائیڈن اس سے قبل یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر تہران 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنا شروع کر دیتا ہے تو وہ اس معاہدے میں شامل ہو جائے گا۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق یہ خاصا حوصلہ افزا آغاز ہے۔
جرمنی، فرانس، برطانیہ، روس اور چین سمیت ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں شامل باقی ممالک نے ویانا میں آپس میں بات چیت کی ہے تاکہ امریکہ کو اس معاہدے میں دوبارہ شامل کرنے کی راہ ہموار کی جا سکے۔
اس سال جنوری میں سعودی عرب نے دوحہ کے تہران کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے قطر کے خلاف علاقائی پابندیوں کو ختم کیا تھا جو تین سال سے زیادہ عرصہ تک جاری رہیں۔
اس اقدام کو امریکی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی نئی امریکی حکومت سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر دیکھا گیا تھا۔
سعودی عرب ایران جوہری معاہدے کی مخالفت کرتا ہے اور اس نے کہا ہے کہ جوہری مذاکرات کو روکا نہیں جائے گا۔
تاہم انھوں نے علاقائی طاقتوں سے کسی نئے معاہدے سے متعلق کسی بھی مباحثے میں شریک ہونے کا مطالبہ کیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ ایران کے میزائل پروگرام اور علاقائی سرگرمیوں پر توجہ دی جانی چاہیے۔
ایرانی صدر حسن روحانی جن کی صدارت اگست میں ختم ہو رہی ہے اور وہ اس سے قبل یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ عرب حریفوں کے ساتھ دشمنی کو کم کرنا چاہتے ہیں۔
Comments are closed.