- مصنف, گلرمو ڈی اولمو
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
- 45 منٹ قبل
مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ ایران نے سنیچر کی شب اسرائیل کے خلاف ڈرونز اور میزائلوں سے حملہ کیا۔اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے جنگی امور سے متعلق اپنی کابینہ کو طلب کیا اور بتایا کہ ملک کے ’دفاعی نظام‘ کو حملے سے نمٹنے کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔خیال رہے کہ یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے میں اس کے دو سینیئر فوجی کمانڈروں کی ہلاکت کے بعد ایران نے جوابی کارروائی کی بات کہی تھی اور ایران نے قونصل خانے پر حملے کا الزام اسرائیل پر لگایا تھا۔یہ ایران اور اسرائيل کے درمیان پرانے قضیے کا تازہ ترین معاملہ ہے۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان برسوں سے خونیں دشمنی جاری ہے اور جغرافیائی سیاسی عوامل کے نتیجے میں ان کی شدت میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ ان کے قضیے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کی اہم وجوہات میں سے ایک ہیں۔تہران اسرائیل کو امریکہ کا حلیف ہونے کی وجہ سے ’شیطان کوچک‘ یعنی ’چھوٹا شیطان‘ کہتا ہے جبکہ اس کے لیے امریکہ ’شیطان بزرگ‘ یعنی ’بڑا شیطان‘ ہے۔دوسری جانب اسرائیل کا الزام ہے کہ ایران ’دہشت گرد‘ گروپوں کی مالی معاونت کرتا ہے اور اس کے مفادات کے خلاف حملے کرتا ہے۔ان ’پرانے دشمنوں‘ کے درمیان کی دشمنی کے نتیجے میں بہت ہلاکتیں ہوئی ہیں اور اکثر یہ سب پس پردہ کارروائیوں کے طور پر سامنے آیا اور کوئی بھی حکومت ان کی ذمہ داری قبول نہیں کرتی تاہم غزہ کی جنگ نے حالات کو مزید خراب کیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
اسرائیل اور ایران کی دشمنی کیسے شروع ہوئی؟
اسرائیل اور ایران کے درمیان تعلقات سنہ 1979 تک کافی خوشگوار ہوا کرتے تھے لیکن پھر تہران کے اقتدار پر آیت اللہ خمینی کے نام نہاد اسلامی انقلاب نے قبضہ کر لیا۔اگرچہ ایران نے فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کی مخالفت کی تھی جس کی وجہ سے سنہ 1948 میں اسرائیل کی ریاست قائم ہوئی تھی لیکن مصر کے بعد ایران دوسرا اسلامی ملک تھا، جس نے اسے تسلیم کیا تھا۔اس وقت ایران میں بادشاہت تھی اور وہاں پہلوی خاندان کے شاہوں کی حکومت تھی اور وہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اہم اتحادیوں میں شامل تھے۔ اسی وجہ سے اسرائیل کے بانی اور اس کے پہلے سربراہ ڈیوڈ بین گورین کی حکومت نے اپنے عرب پڑوسیوں کی طرف سے نئی یہودی ریاست کو مسترد کرنے کا مقابلہ کرنے کے لیے ایران سے دوستی کی کوشش کی اور ان کی دوستی حاصل بھی کی۔لیکن سنہ 1979 میں آیت اللہ روح اللہ خمینی کے انقلاب نے شاہ کا تختہ الٹ کر ایک اسلامی جمہوریہ قائم کی اور اس نے خود کو مظلوموں کے محافظ کے طور پر پیش کیا۔ نئی حکومت کی شناخت کی ایک اہم علامت میں امریکہ کی مخالفت اور اس کے اتحادی اسرائیل کی ’سامراجیت‘ کو مسترد کرنا شامل تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
- ایران پر آبنائے ہرمز میں ’اسرائیلی‘ مال بردار جہاز پر قبضے کا الزام: ’ایران کو صورتحال مزید خراب کرنے کے نتائج بھگتنا ہوں گے‘13 اپريل 2024
- ایران اسرائیل کشیدگی سے متعلق پانچ سوال: ایرانی حملے کیسے کیے گئے اور اسرائیل نے اپنا دفاع کیسے کیا؟14 اپريل 2024
- اسرائیل کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات کو ممکنہ طور پر نشانہ بنانے کے بارے میں فکر مند ہیں، سربراہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی
اسرائیل اور ایران کے درمیان ’شیڈو وار‘
واعظ نے نشاندہی کی کہ دوسری بڑی علاقائی طاقت سعودی عرب سے بھی ایران کا سامنا رہا۔ ایران اس بات سے آگاہ ہے کہ وہ بنیادی طور پر سنی اور عرب اسلامی دنیا میں ایک فارسی اور شیعہ ملک ہے اور ’ایرانی حکومت نے اپنی تنہائی کے احساس کے پیش نظر ایک حکمت عملی تیار کرنا شروع کر دی کہ کہیں اس کے دشمن ایک دن اس کی سرزمین پر نہ حملہ کردیں۔‘اس طرح تہران کے ساتھ منسلک تنظیموں کا نیٹ ورک پھیل گیا اور انھوں نے ایرانی مفادات کے لیے فوجی کارروائیاں کیں۔ ان میں لبنان سے تعلق رکھنے والی حزب اللہ سب سے نمایاں ہے۔ اس تنظیم کو امریکہ اور یورپی یونین نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ آج نام نہاد ایرانی ’مزاحمت کا محور‘ لبنان، شام، عراق اور یمن تک پھیلا ہوا ہے۔اسرائیل بھی خاموش نہیں بیٹھا رہا اور اس نے ایران اور اس کے اتحادیوں پر حملے کیے اور دیگر کارروائیوں کو انجام دیا لیکن انھوں نے ایسا اکثر تیسرے ممالک میں کیا جہاں وہ ایران نواز افواج سے لڑنے والے مسلح گروہوں کی مالی معاونت اور حمایت کرتا ہے۔ایران اور اسرائیل کے درمیان لڑائی کو ’شیڈو وار‘ کے طور پر بیان کیا گیا کیونکہ دونوں ممالک نے اگرچہ ایک دوسرے پر حملے کیے لیکن انھوں نے بہت سے معاملات میں باضابطہ طور پر ان میں اپنی شرکت کا اعتراف نہیں کیا۔سنہ 1992 میں ایران نواز اسلامی جہاد گروپ نے بیونس آئرس میں اسرائیلی سفارت خانے کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں 29 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سے کچھ عرصہ قبل ہی حزب اللہ کے رہنما عباس الموسوی کو قتل کر دیا گیا تھا اور اس حملے کو وسیع پیمانے پر اسرائیل کی انٹیلیجنس سروسز سے منسوب کیا گیا تھا۔ایرانی جوہری پروگرام کو ناکام بنانا ہمیشہ سے اسرائیل کے لیے کسی جنون سے کم نہیں رہا تاکہ آیت اللہ کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے باز رکھا جا سکے۔اسرائیل ایران کے اس موقف پر یقین نہیں کرتا کہ اس کا پروگرام صرف شہری مقاصد کے لیے ہے اور بڑے پیمانے پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس نے امریکہ کے ساتھ مل کر ’سٹکسنیٹ‘ نامی کمپیوٹر وائرس تیار کیا تھا جس نے نئی صدی کی پہلی دہائی میں ایرانی جوہری تنصیبات کو شدید نقصان پہنچایا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
اسرائیل پر حماس کا حملہ
گذشتہ سال سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل کے خلاف حملوں اور اس کے جواب میں اسرائیلی فوج کی طرف سے غزہ کے خلاف شروع کی گئی۔شدید فوجی کارروائی کے بعد تجزیہ کاروں اور دنیا بھر کی حکومتوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ تنازع خطے میں ایک سلسلہ وار ردعمل کو ہوا دے سکتا ہے اور ایران اور اسرائیل کے درمیان کھلے اور براہ راست ٹکر کا سبب بن سکتا ہے۔لبنان کی سرحد پر مبینہ طور پر اسرائیلی فورسز اور حزب اللہ سے منسلک ملیشیا کے درمیان جھڑپوں میں حالیہ مہینوں میں اضافہ ہوا اور اسی طرح مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی مظاہرین کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔اس سنیچر تک ایران اور اسرائیل دونوں نے اپنی دشمنی کو بہت حد تک جنگ تک لے جانے سے گریز کیا تھا لیکن تہران کی جانب سے ڈرون اور میزائل حملوں کے آغاز کے ساتھ یہ رخ بدل گیا۔،تصویر کا ذریعہMenahem Kahana / Getty
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.