ایران اسرائیل کشیدگی سے متعلق پانچ سوال: ایرانی حملے کیسے کیے گئے اور اسرائیل نے اپنا دفاع کیسے کیا؟
- مصنف, ٹام سپینڈر
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 2 گھنٹے قبل
ایران نے پہلی مرتبہ اپنی سرزمین سے اسرائیل پر براہ راست حملہ کیا ہے۔ سنیچر کو نصف شب اسرائیل میں فضائی حملوں کے الرٹ جاری کیے گئے، رہائشیوں کو پناہ لینے کی تلقین کی گئی جبکہ فضائی دفاع کو فعال کرنے کی وجہ سے دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔اسرائیل بھر میں کئی مقامات پر رات گئے فضا میں ان حملوں کو پسپا کرنے کی کوششوں کے دوران آسمان روشن رہا جبکہ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے دعویٰ ہے کہ اسرائیلی علاقے میں پہنچنے سے پہلے ہی کئی ڈرونز اور میزائلوں کو مار گرایا گیا۔ایران، عراق، شام اور یمن سے داغے گئے میزائلوں اور اسرائیل، امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے ساتھ ساتھ اردن نے بھی مار گرایا تھا۔ یہاں ہم آپ کو یہ بتائیں گے کہ اب تک اس حملے کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں۔
ایرانی حملے میں کس قسم کے ہتھیار استعمال کیے گئے؟
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ایران نے اسرائیل کی جانب 300 سے زیادہ ڈرونز اور میزائل داغے تھے۔
فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہاگری نے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک بیان میں کہا تھا کہ حملے میں 170 ڈرون اور 30 کروز میزائل شامل تھے، جن میں سے کوئی بھی اسرائیلی علاقے میں داخل نہیں ہوا اور 110 بیلسٹک میزائل جن میں سے بہت کم تعداد اسرائیل پہنچی۔بی بی سی ان اعداد و شمار کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا ہے ایران سے اسرائیل کا سب سے کم فاصلہ ایک ہزار کلومیٹر ہے اور یہ براستہ عراق، شام اور اردن بنتا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
کن ممالک کی حدود سے ڈرون اور میزائل اسرائیل تک پہنچے؟
عراقی سکیورٹی ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے عراق کے اوپر سے میزائل اڑتے ہوئے دیکھے گئے۔پاسداران انقلاب کا کہنا ہے کہ بیلسٹک میزائل سست رفتار ڈرونز کے تقریباً ایک گھنٹے بعد داغے گئے تاکہ وہ تقریباً ایک ہی وقت میں اسرائیل کو نشانہ بنا سکیں۔امریکی محکمہ دفاع کا کہنا ہے کہ امریکی افواج نے ایران، عراق، شام اور یمن سے داغے گئے درجنوں میزائلوں اور ڈرونز کو ناکام بنا دیا۔لبنان میں ایران کے حمایت یافتہ حزب اللہ گروپ نے یہ بھی کہا ہے کہ اس نے مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں میں اسرائیلی فوجی اڈے پر دو راکٹ داغے ہیں۔
اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے کیسے دفاع کیا؟
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesریئر ایڈمرل ہاگری نے کہا کہ آنے والے بیراج کا تقریباً 99 فیصد حصہ یا تو اسرائیلی فضائی حدود کے باہر یا ملک کے اوپر ہی روکا گیا تھا۔ان میں وہ تمام ڈرونز اور کروز میزائل شامل تھے جو فلیٹ ٹریجیکٹری کی پیروی کرتے ہیں اور زیادہ تر بیلسٹک میزائل، جو انتہائی تیز رفتار ی تک پہنچنے کے لیے کشش ثقل کا استعمال کرتے ہوئے آرکنگ ٹریجٹری پر فائر کیے جاتے ہیں۔امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکی افواج نے اتوار کے روز ایران کی جانب سے داغے گئے تقریباً تمام ڈرونز اور میزائلوں کو مار گرانے میں اسرائیل کی مدد کی۔ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ امریکہ نے اس غیر معمولی حملے سے قبل اپنے طیاروں اور جنگی جہازوں کو خطے میں منتقل کر دیا تھا۔سکیورٹی ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ خطے میں نامعلوم ٹھکانوں سے کارروائی کرتے ہوئے امریکی افواج نے اردن کی سرحد کے قریب جنوبی شام میں متعدد ایرانی ڈرونز کو مار گرایا۔برطانوی وزیر اعظم رشی سنک نے تصدیق کی ہے کہ برطانیہ کے آر اے ایف ٹائیفون جیٹ طیاروں نے بھی متعدد ایرانی ڈرونز کو مار گرایا ہے۔انھوں نے کہا کہ ایرانی حملہ خطرناک اور غیر ضروری کشیدگی ہے جس کی میں سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔اردن کی کابینہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اردن جس کا اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ ہے لیکن وہ غزہ میں فلسطینی گروپ حماس کے خلاف جنگ کے طریقہ کار پر سخت تنقید کرتا رہا ہے، اس نے اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے اس کی فضائی حدود میں داخل ہونے والی پروازوں کو بھی روکا۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ فرانس نے فضائی حدود میں گشت کرنے میں مدد کی لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس نے کسی ڈرون یا میزائل کو مار گرایا ہے یا نہیں۔
کتنے میزائل داغے گئے اور ان سے کیا نقصان ہوا؟
یروشلم میں بی بی سی کے نامہ نگاروں نے سائرن کی آواز سنی اور اسرائیل کے آئرن ڈوم میزائل ڈیفنس سسٹم کو کام کرتے ہوئے دیکھا، جو راکٹوں کا سراغ لگانے کے لیے ریڈار کا استعمال کرتا ہے اوروہ ایسے میزائلوں میں فرق کر سکتا ہے جو ممکنہ طور پر اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔انٹرسیپٹر میزائل صرف ان راکٹوں پر داغے جاتے ہیں جن سے آبادی والے علاقوں کو نشانہ بنانے کی توقع ہوتی ہے۔ریئر ایڈمرل ہاگری نے کہا کہ کچھ بیلسٹک میزائل اسرائیلی علاقے میں داخل ہوئے اور نشانہ بنائے۔ان میں سے ایک نے جنوبی اسرائیل کے صحرائے نیگیو میں نیوٹیم ایئر فورس بیس کو ’معمولی نقصان‘ پہنچا۔رئیر ایڈمرل ہاگری نے کہا کہ اڈہ ’اب بھی کام کر رہا ہے‘۔ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کا دعویٰ ہے کہ اس حملے سے ایئر بیس کو شدید دھچکا لگا ہے۔ریئر ایڈمرل ہاگری نے بتایا کہ چھروں سے ایک 10 سالہ بچی شدید زخمی ہو گئی۔ جنوبی قصبے ارد کے قریب ایک بدو عرب برادری سے تعلق رکھنے والی لڑکی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ اس وقت زخمی ہو گئی جب ایک ایرانی ڈرون کو اوپر سے روکا گیا۔ وہ انتہائی نگہداشت میں ہے۔اردن نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کی سرزمین پر کچھ چھرے گرے ہیں جس سے شہریوں کو کوئی خاص نقصان یا کوئی چوٹ نہیں آئی ہے۔
اب آگے کیا ہو گا؟
اسرائیل کے چینل 12 ٹی وی نے ایک نامعلوم اسرائیلی عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس حملے کا ’مؤثر جواب‘ دیا جائے گا۔اسرائیل کی فضائی حدود ہمسایہ ممالک کی طرح دوبارہ کھول دی گئی ہیں لیکن وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ محاذ آرائی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔دریں اثنا ایران کی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف میجر جنرل محمد باقری نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ ایران نے اسرائیل کو متنبہ کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے ایران کے خلاف جوابی کارروائی کی تو اس کا جواب آج کی فوجی کارروائی سے کہیں زیادہ بڑا ہو گا۔انھوں نے کہا کہ اگر امریکہ نے اسرائیل کی کسی جوابی کارروائی میں حصہ لیا تو امریکی اڈوں پر بھی حملہ کیا جائے گا۔پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر حسین سلامی نے یہ بھی کہا کہ تہران اپنے مفادات، حکام یا شہریوں پر کسی بھی اسرائیلی حملے کا منہ توڑ جواب دے گا۔اسرائیل کی درخواست پر تازہ ترین بحران پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس اتوار کی رات ہونے والا ہے۔امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا کہ وہ اتوار کے روز امیر ممالک کے گروپ جی سیون کے رہنماؤں کو بھی طلب کریں گے تاکہ ایران کے ’وحشیانہ‘ حملے کے ’متحد سفارتی ردعمل‘ میں تعاون کیا جا سکے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.