- مصنف, امید منتظری اور فرزاد صیفی کاران
- عہدہ, بی بی سی فارسی
- 8 منٹ قبل
ایران اور اسرائیل دونوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے 13 اپریل کو ہونے والے حملے میں کامیابی حاصل کی۔ ایک جانب ایران یہ کہہ رہا ہے کہ اس نے اسرائیل پر کامیابی سے حملہ کیا جبکہ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے یہ حملہ ناکام بنا دیا۔ایران کے اعلیٰ فوجی کمانڈروں کا کہنا ہے کہ انھوں نے اسرائیل پر حملے کو ’محدود‘ رکھا اور ان کا ہدف‘ اسرائیلی آبادی اور اقتصادی مراکز‘ نہیں بلکہ فوجی اڈے تھے۔ اسرائیل نے 19 اپریل کو ایک جوابی کارروائی میں ایران پر حملہ کیا ہے جس کی تفصیلات ابھی تک معلوم نہیں۔ہم ایران کے اسرائیل پر کیے گئے حملے میں ہونے والے نقصان کو سمجھنے کے لیے سیٹلائٹ تصاویر، ویڈیوز، تصاویر اور فوجی عہدیداروں کے بیانات کا جائزہ لیتے ہیں اور اس کے ذریعے اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں اب تک اس حملے سے متعلق کیا معلوم ہے اور کیا نہیں۔
اسرائیل پر ایرانی فضائی حملہ
13 اپریل کی علی الصبح ایران نے دمشق میں اپنے سفارتخانے پر حملے کے جواب میں اسرائیل پر تقریباً 300 میزائل اور خودکش ڈرونز داغے تھے جسے ایران نے ’وعدہ صادق‘ کا نام دیا۔ اسرائیلی فوج نے اس حملے کو ناکام بنانے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی حدود میں پہنچنے سے قبل ہی بیشتر میزائلوں اور ڈرونز کو ’ایرو‘ نامی فضائی دفاعی نظام اور خطے میں موجود اتحادیوں کی مدد سے ناکام بنا دیا گیا۔اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ایران نے اسرائیل پر 170 ڈرونز، 120 بیلسٹک میزائلوں اور 30 کروز میزائلوں سے حملہ کیا۔ ایران نے حملے کو تین حصوں پر مرتب کیا تھا: پہلے خودکش ڈرونز، پھر کروز میزائل اور آخر میں بیلسٹک میزائل۔ایران کے پاسداران انقلاب کی ایرو اسپیس فورس، جس کی سربراہی امیر علی حاجی زادہ کر رہے تھے، اسرائیل پر حملے کی ذمہ دار تھی تاہم پاسداران انقلاب نے ابھی تک باضابطہ طور پر یہ اعلان نہیں کیا کہ اس نے اسرائیل کے خلاف کتنے اور کس قسم کے ڈرونز اور میزائل استعمال کیے۔ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن پر شائع ہونے والے پاسداران انقلاب کے دو بیانات میں کہا گیا کہ انھوں نے درجنوں ڈرونز اور میزائلوں کے ذریعے اسرائیل کے ’مخصوص اہداف کو نشانہ بنایا۔‘،تصویر کا ذریعہIRIBNEWS
سیٹلائٹ تصویر ہمیں کیا بتاتی ہے؟
بی بی سی فارسی نے حملے کے بارے میں دستیاب اعداد و شمار اور معلومات کا تجزیہ کیا اور حملے سے پہلے اور بعد کی سیٹلائٹ تصاویر کا موازنہ کیا۔سیٹلائٹ کی مدد سے حاصل کردہ ان تصاویر کو اکثر کسی ایسے حملے میں ہونے والی تباہی، اہداف پر آنے والی ممکنہ تبدیلیوں اور حملے کی علامات سے موازنہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ان تصاویر کے جائزہ سے حاصل ہونے والی معلومات کو حملے سے متعلق سوالات کے جوابات دینے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ تصاویر اسرائیل پر ایرانی حملے کی شدت اور دمشق میں ایرانی قونصل خانے کی عمارت پر اسرائیلی حملے کے درمیان تعلق کی نشاندہی کر سکتی ہیں۔نواتیم ایئر بیس پر حملہ اسرائیل کے اہم فضائی اڈوں میں سے ایک پر حملہ تصور کیا جاتا ہے کیونکہ یہ اسرائیل کے اہم دیمونا جوہری مرکز سے صرف 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اس حملے کو ایران کی جانب سے ایک دھمکی آمیز پیغام بھیجنا سمجھا جا سکتا ہے۔دوحہ انسٹیٹیوٹ میں سکیورٹی اور ملٹری سٹڈیز کے پروفیسر عمر آشور سمیت چند دیگر عسکری امور کے تجزیہ کاروں نے ایران کے حملے کو عسکری اور انٹیلیجنس دونوں لحاظ سے اہم قرار دیا۔ایران کا اسرائیل پر حملہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایرانی میزائل ٹیکنالوجی کی صلاحیت جس نے ہمیشہ مغرب کو تشویش میں رکھا اور مغرب نے اسے (ایران کو) جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے روکنے کے لیے مرتب دیے گئے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کی قرار داد 2231 کے تحت میزائل ٹیکنالوجی سے روکے رکھنے کی کوشش کی۔ اس حملے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایران نے اسرائیل کے شمال اور مغرب کو نشانہ بنایا اور اس حملے سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ اس کو اسرائیل کے کسی بھی حصہ تک ہدف جو نشانہ بنانے کی رسائی حاصل ہے۔عمر آشور کے مطابق ایران کے حملے میں استعمال ہونے والے ڈرونز کی تعداد اور حملے کے لیے طے کیے گئے فاصلے کی ’مثال نہیں ملتی۔‘
نواتیم ایئر بیس: اہم ہدف
ایران کے حملے میں اسرائیلی فوج کے زیر استعمال نواتیم بیس زیر بحث رہی ہے اور سیٹلائٹ کی مدد سے حاصل کردہ تصاویر میں اس میں تبدیلیاں واضح ہیں۔ اسرائیل نے بھی اس اڈے کو ’معمولی‘ نقصان پہنچنے کی تصدیق کی۔نواتیم ایئر بیس وسطی اسرائیل، جنوبی مغربی کنارے اور بحیرۂ مردار کے مغرب میں واقع ہے۔12 سے 14 اپریل کے درمیان سیٹلائٹ کی مدد سے لی گئی تصاویر کے مطابق نواتیم فضائی اڈے پر کم از کم چار مقامات پر کچھ تبدیلیوں کو دیکھا جا سکتا ہے البتہ صرف ان تصاویر سے میزائل حملے کو ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیلی فوج نے 14 اپریل کو 19 سیکنڈ کی ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں حملے سے متاثر ہونے والے تین مختلف مقامات کو دکھایا گیا تھا۔ ویڈیو میں اسرائیلی افواج کو رن وے کی مرمت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔اس ویڈیو میں اس فضائی اڈے کے رن وے کے جس مقام کی مرمت کی جا رہی ہے وہ سیٹلائٹ تصاویر میں ظاہر ہوبے والے ایک مقام سے مماثلت رکھتا ہے جس میں ایک بڑی تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔بیس میں پانچ بڑے رن وے ہیں جو بیس کے شمال اور جنوب میں ہیں۔،تصویر کا ذریعہIDF
ہرمن انٹیلیجنس اڈہ اور ریمن کی ایئر بیس
اسرائیل میں ہرمن کی انٹیلیجنس بیس شام اور عراق کی سرحد کے قریب گولان کی پہاڑیوں پر واقع ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اسرائیل کا سب سے اہم ملٹری انٹیلیجنس یونٹ 8200 جو الیکٹرانک انٹیلیجنس کا ذمہ دار ہے، اس اڈے پر تعینات ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ سب سے بڑا ملٹری انٹیلیجنس یونٹ ہے۔پاسداران انقلاب کا کہنا ہے کہ ہرمن بیس قونصل خانے پر حملے کے لیے انٹیلیجنس معلومات جمع کرنے میں ملوث تھا، یہی وجہ ہے کہ اس ایرانی حملے میں ہدف بنایا گیا تھا۔،تصویر کا ذریعہShutterstock
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.