- مصنف, سیم گروٹ
- عہدہ, بزنس رپورٹر، بی بی سی نیوز
- 55 منٹ قبل
رائن ایئر نامی ایئر لائن نے جب ایک مسافر سے ایئر پورٹ پر چیک اِن کرنے کی مد میں 165 پاؤنڈ وصول کیے تو اس شخص نے ایئر لائن کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا۔ اگرچہ وہ یہ مقدمہ ہار گئے تاہم ایئر لائن کے خلاف قانونی کارروائی کرنے پر انھیں کوئی افسوس نہیں۔ ایئرپورٹ چیک اِن کے ذریعے ایک ایئر لائن مسافر کو پرواز پر سوار ہونے یعنی بورڈنگ کی منظوری دیتی ہے اور یوں انھیں بورڈنگ پاس تھمایا جاتا ہے۔ ویلز کے علاقے نیتھ سے تعلق رکھنے والے ڈیمیئن لوئیڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے اس وقت شدید غصہ آیا تھا۔ مجھے اس کے خلاف کچھ تو کرنا تھا۔ انھوں نے میری چھٹیوں کے کچھ دن برباد کر دیے۔‘رائن ایئر کے مطابق لوئیڈ نے اپنے خاندان کو ’ان چیکڈ‘ کرایا تھا جس کے بعد دوبارہ چیک اِن کرنے پر رقم وصول کی گئی۔ اس معاملے پر صارف اور ایئر لائن کے بیچ تنازع چھڑا۔
مگر اب ایک آزادانہ محتسب نے ایئر لائن کے حق میں فیصلہ سنایا ہے۔ ایئرلائن سے متعلق شکایات کے حل کے لیے قائم آزادانہ سکیم ایوی ایشن اے ڈی آر نے کہا کہ رائن ایئر نے ’اپنی شرائط و ضوابط کی پیروی کی۔‘’ایئر لائن نے شواہد دیے کہ مسافر نے 21 جون کو آن لائن چیک اِن کیا۔ پھر انھوں نے 22 جولائی کو چیک آؤٹ کر دیا۔ اسی وجہ سے شائع شدہ بورڈنگ پاسز غیر موثر ہوگئے اور انھیں دوبارہ سے ایک نیا چیک اِن درکار تھا۔‘بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لوئیڈ نے کہا کہ انھیں اس قانونی چارہ جوئی پر کوئی افسوس نہیں، حتیٰ کہ رائن ایئر نے ان کے ساتھ ’بدتمیزی‘ کی۔ وہ کہتے ہیں کہ رائن ایئر ’یہ جاننا ہی نہیں چاہتا تھا اور اس نے مجھے مزید غصہ دلایا۔‘ایوی ایشن اے ڈی آر نے کہا کہ لوئیڈ کے پاس اپنی شکایات عدالتوں تک لے جانے کا راستہ موجود ہے مگر 50 سالہ لوئیڈ کہتے ہیں کہ وہ مزید اس کیس پر پیسے نہیں لگانا چاہتے۔ لوئیڈ ایک ہیلتھ اینڈ سیفٹی مینیجر ہیں جو جولائی کے دوران اپنے خاندان کے ساتھ 10 روز کے لیے سپین کے جزیرے گران كناريا جانا چاہتے تھے۔ انھوں نے اس کے لیے رائن ایئر کی پرواز بُک کرائی تھی۔ انھوں نے آن لائن چیک اِن کیا مگر اس بات نے انھیں ’شدید حیرت میں مبتلا‘ کر دیا جب ان کا، ان کی بیوی کا اور بیٹی کا بورڈنگ پاس سکین ہی نہ ہو پایا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesکاؤنٹر پر رائن ایئر کا ملازم بھی پریشان رہ گیا۔ یہ علی الصبح کی پرواز تھی اس لیے وہ رائن ایئر کی کسٹمر سروس پر فون کر کے اپنے مسئلے کی جانچ نہیں کرا سکے۔خاندان کو دو راستے دیے گئے: پہلا یہ کہ کسٹمر سروس کی فون لائن کھلنے کا انتظار کریں اور اپنی پرواز چھوڑ دیں۔ دوسرا یہ کہ نئے بورڈنگ پاس کے لیے رقم جمع کرائیں۔ انھوں نے دوسرا راستہ چُنا۔ لوئیڈ نے کہا کہ انھیں یہ کہا گیا تھا کہ وہ ’رقم کی واپسی کا دعویٰ دائر کر سکتے ہیں‘ لیکن جب انھوں نے ایسا کیا تو رائن ایئر نے اسے مسترد کر دیا اور بتایا کہ انھوں نے خود پرواز سے قبل ’ان چیک‘ کر دیا تھا۔ اس وقت لوئیڈ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’رائن ایئر نے ہر ممکن بہانہ بنایا۔ مجھے دھوکہ دیا گیا۔ اگر وہ مجھ سے معافی مانگ کر مجھے اگلی پرواز پر 10 فیصد ڈسکاؤنٹ دے دیتے تو میں خوش ہو جاتا۔‘گذشتہ سال ایئر لائن کی جانب سے اضافی رقوم وصول کرنا زیرِ بحث رہا۔ ایک معمر جوڑے سے ایئر پورٹ پر ٹکٹس پرنٹ کرنے کی مد میں 110 پاؤنڈ وصول کیے گئے تھے۔ اس جوڑے نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ انھوں نے غلطی سے واپسی کی ٹکٹیں پہلے پرنٹ کرا لی تھیں اور اس کی وجہ سے ان سے چیک اِن فیس وصول کی گئی۔ ایئر پورٹ کی چیک اِن فیس ڈاؤن لوڈ کیے جانے والے بورڈنگ پاس سے کہیں گنا زیادہ مہنگی ثابت ہوئی۔ وچ ٹریول کے مدیر روری بولینڈ نے لوئیڈ کے کیس پر تبصرہ کیا کہ ’ایک غلطی پر صارف سے تین صفحے پرنٹ کرنے کے 165 پاؤنڈ وصول کرنا ناانصافی ہے۔ شاید اسی لیے رائن ایئر کو برطانیہ کی بدترین ایئر لائنز میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔‘بی بی سی نے رائن ایئر سے اس کا موقف جاننے کی کوشش کی تاہم اس کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.