قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے اجلاس میں ن لیگ کے میاں جاوید لطیف اور پی ٹی آئی کے علی نواز اعوان نے مطالبات کردیے۔
اسلام آباد میں میاں جاوید لطیف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کا اجلاس ہوا، جس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم شریک نہیں ہوئے۔
اجلاس کے دوران اہم قومی معاملات پر دیے گئے بیان حلفی کی تحقیقات کا جائزہ لینے کے لیے 4 رکنی سب کمیٹی بنادی گئی۔
اس پر ن لیگی رہنما نے کہا کہ یہ معاملہ دو سابق چیف ججز کا ایک دوسرے پر الزام کا ہے، کمیٹی ثاقب نثار اور رانا شمیم کو دوبارہ کثرت رائے سے بلائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیاستدان تو ہمیشہ عدالتوں بلکہ فوجی عدالت میں بھی پیش ہوتے رہے ہیں، یہاں تو وزرائے اعظم بھی عدالت کے روبرو پیش ہوچکے ہیں۔
میاں جاوید لطیف نے یہ بھی کہا کہ دونوں سابق چیف ججز آئندہ میٹنگ میں ضرور پیش ہوں اور اپنی اور ادارے کی ساکھ پر اٹھنے والے سوالوں کا جواب دیں۔
دوران اجلاس پی ٹی آئی رہنما علی نواز اعوان نے کہاکہ جتنے بیان حلفی آج تک آئے ہیں، کمیٹی کو ان سب کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جج رانا شمیم کے بیان حلفی، مہران بینک، جج ارشد ملک کے بیان اور اسحاق ڈار کے وعدہ معاف گواہ کے بیان کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔
اس پر ن لیگی رہنما میاں جاوید لطیف نے کہا کہ آئی جے آئی بنوانے والوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے،اگر تو رانا شمیم کی خبر کی تصدیق نہ ہو تو پھر ایکشن ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہاکہ اداروں کا بڑا احترام ہے لیکن ہائیکورٹ کوجسٹس شوکت عزیزصدیقی کے بیان پر ازخود نوٹس لینا چاہیے تھا۔
دوران اجلاس اہم قومی معاملات پر دیے گئے بیان حلفی کی تحقیقات کا جائزہ لینے کے لیے 4 رکنی سب کمیٹی بنادی گئی۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سب کمیٹی آئی جے آئی کی تشکیل اور ذوالفقار علی بھٹو کے قتل پر ججز پر دباؤ کے واقعات کا جائزہ بھی لے گی۔
کمیٹی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سب کمیٹی رانا شمیم کے بیان حلفی سمیت دیگر واقعات کا جائزہ لے گی اور اس حوالے سے سوالنامہ بھی تشکیل دے گی۔
میاں جاوید لطیف نے دوران اجلاس کہا کہ پہلے تو وزارت داخلہ نے دعوے کیے کہ صحافی ابصار عالم اور اسد طور کے ملزم پکڑنے کے قریب ہیں، اب بتایا جائے ملزمان کب پکڑے جائیں گے۔
صحافی ابصار عالم نے کہا کہ اسلام آباد میں اب کسی کو احساس تحفظ نہیں ہے۔
دوسری طرف اسلام آباد پولیس نے کیسز میں پیشرفت کے لیے ایک ہفتے کی مہلت مانگ لی ہے۔
اسلام آباد پولیس حکام نے اس مزید کہا کہ جن صحافیوں کو خطرات ہیں، اگر وہ پیمنٹ دیں تو انہیں گارڈ مہیا کرسکتے ہیں۔
Comments are closed.