- مصنف, مالو کرسینو
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 2 گھنٹے قبل
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ انھوں نے اہرام مصر کی تعمیر کی پیچیدہ ترین گتھیوں میں سے ایک کا جواب ڈھونڈ لیا ہے یعنی چار ہزار سال قبل جیزہ کے اہرام سمیت 31 بلند عمارات کیسے تعمیر ہوئی تھیں۔امریکہ کی نارتھ کیرولینا ولمنگٹن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا ہے کہ مصرک کے اہرام غالبا دریائے نیل کی ایک ایسی قدیمی شاخ کے ساتھ تعمیر ہوئے تھے جو اب ریت اور زرعی زمین کے نیچے چھپ چکی ہے۔کئی سال تک ماہرین آثار قدیمہ کا خیال یہ تھا کہ قدیم مصریوں نے اہرام کی تعمیر میں استعمال ہونے والے بڑے بڑے پتھر پانی کی کسی قریبی گزرگاہ کے ذریعے اس مقام تک پہنچائے ہوں گے۔حالیہ تحقیق کے مصنفین میں سے ایک پروفیسر ایمان غونیم کا کہنا ہے کہ ’اب تک کسی کو اس ممکنہ پانی کی گزرگاہ کے مقام، شکل، حجم اور اہرام سے قربت کے بارے میں یقین سے کچھ معلوم نہ تھا۔‘
،تصویر کا ذریعہEman Ghoneim/UNCW
اس ٹیم نے یہ جانا کہ ’اہرامات‘ نامی دریائے نیل کی یہ شاخ تقریبا 64 کلومیٹر طویل اور 200 سے 700 میٹر چوڑی تھی۔ اور یہ 31 اہرام کے ساتھ ساتھ گزرتی تھی جو 4700 سے 3700 سال قبل تعمیر ہوئے تھے۔اس دفن ہو جانے والے دریا کی دریافت سے وضاحت ہوتی ہے کہ اسی مخصوص مقام پر اتنے زیادہ اہرام کیوں ہیں جو اب سہارا صحرا کا ایک ایسا حصہ ہے جہاں زندگی کے زیادہ آثار باقی نہیں۔تحقیقی مقالے میں بتایا گیا ہے کہ اہرام مصر کی تعمیر کے دوران دریا کی یہ شاخ رواں ہوا کرتی تھی۔ڈاکٹر اونسٹین کے مطابق ’قدیم مصری باشندے مزدوروں پر بوجھ ڈالنے کے بجائے دریا کی توانائی کو استعمال کرتے ہوئے بہت زیادہ وزنی پتھر لا سکتے تھے جس پر کم محنت لگتی۔‘واضح رہے کہ دریائے نیل قدیم مصر میں زندگی کا ذریعہ مانا جاتا تھا اور آج تک ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.