’اگر ہم میانمار، غزہ، انڈیا کے مسلمانوں کے مصائب سے غافل ہیں تو ہم مسلمان نہیں‘: ایرانی رہبر اعلیٰ کا بیان جس پر انڈیا کو تشویش ہے
- مصنف, مرزا اے بی بیگ
- عہدہ, بی بی سی اردو، نئی دہلی
- 19 منٹ قبل
ایران کے رہبر اعلیٰ اور روحانی پیشوا آیت اللہ سید علی حسینی خامنہ ای نے پیغمبرِ اسلام کے یوم پیدائش کے موقع پر اپنے ایک بیان میں انڈیا کو غزہ اور میانمار کے ساتھ ان ممالک میں شمار کیا ہے جہاں مسلمانوں کو مشکلات اور مصائب کا سامنا ہے۔انڈیا نے ایرانی مذہبی رہنما کے بیان پر سخت اعتراض کرتے ہوئے اسے ’بے بنیاد‘ اور ’ناقابل قبول‘ قرار دیا ہے۔خیال رہے کہ انڈیا اور ایران کے تاریخی تعلقات رہے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی اور تجارتی تعلقات ہیں لیکن گذشتہ برسوں کے دوران ان میں اتار چڑھاؤ نظر آیا ہے۔گذشتہ روز ایران کے رہبر اعلیٰ کی جانب سے کی گئی ٹویٹس پوری دنیا میں مسلمانوں کو درپیش مسائل کا احاطہ کرتی ہیں۔
سید علی خامنہ ای نے متواتر اپنی کئی ٹویٹس میں ’امت مسلمہ‘ کا ذکر کیا۔ انھوں نے لکھا کہ ’امت مسلمہ کے تصور کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔‘جبکہ اس کے بعد کی ٹویٹ میں انھوں نے میانمار، غزہ اور انڈیا کا ہیش ٹیگ کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ایرانی رہنما نے لکھا کہ ’اسلام کے دشمنوں نے ہمیشہ ہمیں امت مسلمہ کے مشترکہ تشخص سے لاتعلق رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ہم اپنے آپ کو اس وقت تک مسلمان نہیں سمجھ سکتے جب تک ہم میانمار، غزہ، انڈیا یا کسی اور جگہ کے مسلمانوں کے مصائب سے غافل ہوں جو انھیں درپیش ہیں۔‘اس کے بعد انھوں نے ’اتحاد‘ پر زور دیا اور اسے کسی حکمت عملی کے بجائے اسلام کا بنیادی اصول قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ قرآن میں موجود ہے۔‘،تصویر کا ذریعہMEA
انڈیا کا ردعمل
انڈین دفتر خارجہ نے ایرانی رہنما کے ٹویٹ پر ردعمل دیتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔انڈین دفتر خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ایک بیان پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہم ایران کے رہبر اعلیٰ کی جانب سے انڈیا میں اقلیتوں کے بارے میں کیے گئے تبصروں کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ یہ غلط معلومات ہیں اور ناقابل قبول ہیں۔ اقلیتوں پر تبصرہ کرنے والے ممالک کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کے بارے میں کوئی بات کرنے سے پہلے اپنے ریکارڈ کو دیکھیں۔‘اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ایران کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ انڈیا میں مسلمانوں کا اتنا ہی ہمدرد ہیں تو انھیں اپنے ملک میں جگہ دے جبکہ بعض نے لکھا کہ انڈیا دنیا کا تیسرا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں۔بہر حال یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جب ایران کے رہبر اعلیٰ کی جانب سے انڈیا کے مسلمانوں سے متعلق تشویش کا اظہار کیا گیا ہو۔اس سے قبل سنہ 2020 میں جب انڈین دارالحکومت دہلی میں مسلم مخالف فسادات ہوئے تھے تو بھی ایرانی رہنما نے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسلمانوں کا ’قتل عام‘ قرار دیا تھا۔انھوں نے ایک ٹویٹ میں انڈین حکومت سے کہا تھا کہ ’وہ ہندو انتہا پسندوں اور ان کی جماعتوں کو مسلمانوں کے قتل عام سے روکیں ورنہ وہ دنیا میں تنہا پڑ جائے گا۔‘،تصویر کا ذریعہsocial media
ایرانی رہبر اعلیٰ کے بیان کا مطلب کیا ہے؟
ایران یوں تو غزہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم اور اسرائیل کی کارروائیوں کے خلاف بات کرتا رہا ہے لیکن انڈیا پر اس کا موقف عام طور پر دوستانہ رہا ہے۔تو پھر انڈیا کے ایک دوست ملک کے اہم ترین رہنما کی جانب سے انڈیا کے مسلمانوں سے متعلق بیان کا کیا مطلب لیا جا سکتا ہے۔ہم نے اس بابت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر محمد سہراب سے بات کی تو انھوں نے اسے انڈیا کے لیے ایک ’لمحۂ فکریہ‘ قرار دیا اور کہا کہ ہم نے ایسی صورت حال پیدا ہی کیوں ہونے دی کہ ایک دیرینہ دوست کی جانب سے اس طرح کا بیان سامنے آیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’ایران کے رہنما کے بیان کو مسترد کر دینے سے زمینی حقائق پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا ہے۔ اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ غزہ اور میانمار میں جس طرح سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ایک عرصے سے انڈیا میں مسلمانوں کو اس طرح کی صورت حال کا سامنا ہے۔ فرق یہ ہے کہ غزہ اور میانمار میں مسلسل جبر ہو رہا ہے جبکہ ہمارے یہاں انڈیا میں وقفے سے اور مختلف ریاستوں میں ہوتا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’انڈیا کے اندر ایک خاص طبقے کی اندرونی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔’انھوں نے کہا کہ ’اگر ہم اتنے ہی انصاف پرور ہیں تو ہمیں دوسروں کو موقع نہیں دینا چاہیے کہ وہ ہمارے اندرونی معاملات میں دخل دے۔‘ایران انڈیا تعلقات کے امور کی ماہر اور انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اینالیسز (آئی ڈی ایس اے) میں ریسرچ فیلو ڈاکٹر دیپکا سراسوت نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور انڈیا کے تعلقات بہت گہرے ہیں۔ اس طرح کے بیانات آپ ایران کی حکومت کی جانب سے نہیں دیکھتے ہیں، نہ صدر کی جانب سے اور نہ ہی ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے۔ ایسے بیان ایران کے مذہبی پیشوا کی جانب سے آتے ہیں جس کے کئی مقاصد ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر دیپکا سراسوت کہتی ہیں کہ اس کی ایک وجہ تو عالم اسلام کی قیادت کی دوڑ ہے جس میں سعودی عرب اور ترکی جیسے ممالک شامل ہیں۔ ایران گاہے بگاہے دنیا بھر میں مسلم امہ پر اپنی تشویش کے اظہار سے عالم اسلام کی رہنمائی کے اپنے دعوے کو پیش کرتا ہے۔دہلی کی جواہر لعل یونیورسٹی میں سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں پروفیسر اے کے مہاپاترا بھی دیپکا سراسوت کے خیالات سے متفق نظر آتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے مطابق ایران نے جو بیان دیا ہے وہ اسلامی دنیا میں رہنمائی کے مقابلے کو ظاہر کرتا ہے۔’بنیادی طور اسلامی رہنمائی کا ایک مقابلہ شروع ہوا ہے جس میں ایران کے علاوہ سعودی عرب اور ترکی ہے۔ سعودی عرب اور ترکی سنی ممالک ہیں جبکہ ایران شیعہ ملک ہے۔‘،تصویر کا ذریعہREUTERS/EPA
بدلتی جغرافیائی سیاست
،تصویر کا ذریعہReuters
سوشل میڈیا پر مباحثہ
سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ایران کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ انڈین مسلم بھی ٹرینڈ کر رہا ہے۔انڈین وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں جس ریکارڈ کو دیکھنے کا ذکر کیا ہے اس حوالے سے بھی لوگ بات کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے حجاب کے خلاف آواز اٹھانے والی خاتون مہسا امینی کا بھی ذکر کیا ہے جبکہ کچھ لوگوں نے تاریخ کے اوراق الٹتے ہوئے زرتشت مذہب کے ماننے والوں کے خاتمے پر سوال کیا ہے۔گنیش نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ صرف غیر ضروری بات کر سکتے ہیں۔ انھوں نے قاسم سلیمانی اور اسماعیل ہنیہ کے انھی کے گھر میں قتل کے بعد امریکہ اور اسرائیل کو دھمکی دی۔ وہ صرف کسی احمق کی طرح رو سکتے ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہXنلوپت ساہا نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’تم نے ایران میں زرتشتوں کے ساتھ کیا کیا۔ ایران ہمیشہ سے ان کا تھا۔ لیکن اسلامی جبر کے نتیجے میں ایران میں زرتشت مذہب کے ماننے والے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جبکہ انڈیا میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔‘انڈین مسلم ٹرینڈ کے تحت مسلمانوں پر مختلف مقامات پر ڈھائے جانے والے مظالم کے ویڈیو کلپس کو شیئر کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اب انڈیا میں مسلمانوں کا اپنے مذہب پر چلنا اور اپنے پیغمبر کی ولادت کا جشن منانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔،تصویر کا ذریعہXصحافی پنکج پچوری نے ایرانی رہنما علی خامنہ ای کے ساتھ سابق انڈین پی ایم منموہن سنگھ کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ابھی کوئی ایک دہائی قبل کی ہی بات ہے جب ایرانی رہنما انڈیا سے مذہبی تنوع پر سبق لے رہے تھے اور آج حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں۔‘سنہ 2014 میں انڈیا میں بی جے پی کی مودی حکومت کے آنے کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف تشدد اور نفرت دونوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور اس کا اظہار سوشل میڈیا پر کھلے عام کیا جا رہا ہے۔پروفیسر سہراب کے مطابق یہ نہ صرف انڈیا بلکہ عالم اسلام کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.