قرض جمع کرنے والوں کے شرمناک حربے: ’اگر میں نے قرضہ واپس نہ کیا تو وہ میرا گردہ نکال لیں گے‘
افریقی صحافیوں کی جانب سے بھیجے گئے خطوط کے سلسلے میں، کینیا کے براڈ کاسٹر وائیگا ماورا نے ڈیجیٹل لینڈنگ ایپس کے ذریعے دیے گئے قرضوں کی وصولی کے لیے قرض دینے والوں کے دھمکی آمیز حربوں اور ان کے ردِعمل میں عوامی غم و غصے پر روشنی ڈالی ہے۔
کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں ایک پادری ایک منفرد شکایت کے ساتھ ہمارے نیوز روم میں حاضر ہوا۔
ایک ہفتے کے دوران اس کا فون قرض جمع کرنے والوں کی کالوں سے مسلسل بجتا رہا۔۔۔ ان افراد نے دعوی کیا کہ پادری کے چرچ کی ایک رکن نے انھیں اپنے لیے گئے قرض کا ضامن نامزد کیا ہے۔
پہلے تو پادری نے اسے مذاق جانا لیکن کئی پریشان کن فون کالز کے بعد پہلے انھیں تجسس، پھر حیرانگی اور آخر کار قرض جمع کرنے کے اس حربے پر شدید غصہ آیا۔
فون پر بات چیت دن بہ دن شدت پکڑتی رہی۔
فون کرنے والے ابتدائی طور پر شائستہ تھے اور انھوں نے صرف یہ کہا کہ وہ اس خاتون سے بات کریں تاکہ وہ قرض کو واپس کر سکے جو اس نے مہینہ پہلے لیا تھا۔
لیکن اس کے بعد کال کرنے والوں کا لہجہ زیادہ جارحانہ اور سخت ہو گیا، انھیں ایک جعلی پادری قرار دیا جس نے اپنے چرچ کے اراکین سے قرضوں کی ادائیگی کے بارے میں بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ مسلسل کالوں سے انھیں دھمکاتے رہیں گے۔
جب ان کی اہلیہ نے مداخلت کی کوشش کی تو انھوں نے ان کے ساتھ بھی بدسلوکی کی۔
کئی دنوں تک پادری اپنا فون استعمال نہیں کر سکے کیونکہ انھوں نے کال کرنے والوں کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
اور جب یہ کہانی ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ذریعے منظرِ عام پر آئی تو #Debtofshame ہیش ٹیگ کے ساتھ بہت سے کینیائی افراد نے قرضے جمع کرنے والوں کے ساتھ اپنے تجربات شئیر کرنا شروع کیے۔
ایک ٹوئٹر صارف نے بتایا کہ انھیں خبردار کیا گیا کہ ’اگر میں نے قرضہ واپس نہ کیا تو وہ میرا گردہ نکال لیں گے۔‘
ایک اور شخص نے بتایا کہ انھوں نے ایک مرتبہ 2000 کینیا شلنگز (18 ڈالر) قرض لیا تھا، اور 10 دن بعد ’وہ میری گردن پر سوار تھے۔ میں سو نہیں سکا اور نہ کچھ سوچ سمجھ سکا۔۔۔۔ وہ میری جتنی بےعزتی کر سکتے تھے انھوں نے کی۔‘
ایک تیسرے صارف کے مطابق جب اس نے قرض کی وصولی کرنے والے ایجنٹ کے طور پر کام کیا تو اسے کس طرح اپنے آجر کے مقرر کردہ یومیہ اہداف کو پورا کرنا پڑا۔
انھوں نے بتایا کہ ’مالکان نے اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ آپ نے پیسے کیسے برآمد کیے۔ وہ صرف اپنے پیسے کی وصولی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ میں نوکری نہ چھوڑتا تو پاگل ہو جاتا۔‘
موبائل کے ذریعے قرض لینے کا رجحان
اس میں کوئی شک نہیں کہ کینیا کے لوگوں میں ڈیجیٹل لینڈنگ ایپس کے ذریعے قرض لینے کا رجحان بڑھا ہے۔
ڈیجیٹل لینڈنگ ایپس میں رازداری برتی جاتی ہے، ان تک رسائی جلدی اور آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہے اور کسی ضمانت کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔
لیکن ایسے قرض دینے والے صارفین کی ادائیگی کی عادتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے قرض کی اہمیت کا اندازہ لگاتے ہیں اور مقروض افراد سے کبھی آمنے سامنے ملتے بھی نہیں۔
شاید یہ سبب ممکن نہ ہوتا اگر یہ افریقی براعظم موبائل منی میں عالمی رہنما نہ بنا ہوتا۔
موبائل نیٹ ورک آپریٹرز نے پچھلی دہائی سے افریقہ میں منی سروسز پر غلبہ حاصل کیا ہے۔
حال ہی میں ایسی مالیاتی ٹیکنالوجی کمپنیاں سامنے آئی ہیں جنھوں نے ایک مضبوط نیٹ ورک قائم کیا ہے، ان میں سے کچھ کو مغربی اور ایشیا کی مارکیٹوں میں بڑے وینچر کیپیٹل گروپس کی حمایت حاصل ہے۔
یہ بھی پڑھیے
وہ قرض دینے والے شعبے میں اس خلا کو پورا کرتے ہیں جہاں کم آمدنی والے افراد کو کریڈٹ تک رسائی حاصل نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس روزگار کے مواقع، ضمانت یا ضامن نہیں ہیں۔
لیکن افریقی مارکیٹ میں ان کی انٹری نے ایک طوفان کھڑا کردیا ہے کیونکہ یہ بڑے پیمانے پر غیر منظم ہیں اور ان کے کاروبار کرنے کا انداز غیر اخلاقی ہے۔
وہ بے وقوف نوجوانوں کو بہت جلد قرض کی پریشانیوں میں پھنسا لیتے ہیں اور اگر وہ ادائیگی کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو کمپنیاں غیر روایتی ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے ہوئے انھیں رسوا کرتی ہیں۔
اگرچہ کینیائی افراد میں ان قرضوں کی مقبولیت بڑھی ہے تاہم کچھ افراد نے شرح سود کو حد سے زیادہ قرار دیا ہے۔
اگرچہ کسی بینک سے لیے گئے قرض پر شرح سود سالانہ 12 اور 14 فیصد کے درمیان ہوتا ہے، لیکن موبائل ایپ کے ذریعے لیے گئے قرض پر شرح سود سالانہ 75 اور 395 فیصد کے درمیان ہو سکتی ہے۔
فون ایپس کے ذریعے گروی رکھنا
اس کے علاوہ کچھ ایپس پر قرض وصولی کے لیے غلط ہتھکنڈے اپنانے کا بھی الزام ہے جس میں ایک چینی نژاد قرض دہندہ پر 30 دن کے اندر قرض کی ادائیگی کے لیے زور ڈالے کا الزام بھی شامل ہے۔ جبکہ ان ایپس کا ہوسٹ گوگل قرض لینے والوں کو ادائیگی کے لیے 60 دن کی مہلت دیتا ہے۔
کینیا کی ڈیجیٹل لینڈرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین کیون موٹیسو کا کہنا ہے کہ قرض لینے پر شرمندہ کرنا اچھی علامت نہیں کیونکہ اس اچھے آئیڈیا نے بہت سے چھوٹے تاجروں کو کریڈٹ تک فوری رسائی حاصل کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ڈیجیٹل کریڈٹ کے بغیر بہت سے کینیائی افراد کورونا وائرس پھیلنے کے بعد لاک ڈاؤن میں ایک سال سے زیادہ عرصہ تک زندہ نہیں رہ سکتے تھے۔
’لوگ ان موبائل قرضوں کے ذریعے کھانا خرید سکتے ہیں، اپنا کرایہ ادا کر سکتے ہیں، ٹرانسپورٹ اور دیگر بلوں کی ادائیگی کے علاوہ سکول کی فیس بھی ادا کر سکتے ہیں۔‘
کچھ افراد کا خیال ہے کہ قرض دینے والوں کے ہتھکنڈوں سے بچنے کے لیے ریگولیشن کی ضرورت ہے جبکہ دیگر کو تشویش ہے کہ ریگولیشن ایسی صنعت کو روک دے گی جو کورونا وائرس سے متاثر معیشت میں ملازمتوں اور سرمایہ کاری کو بڑھا رہی ہے۔
اور یہاں تک کہ 2019 کینیا ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ جیسے قوانین، جو ذاتی ڈیٹا کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے بنایا گیا ہے، ڈیجیٹل قرضے دینے والی سکیموں کو روکنا ناممکن لگتا ہے۔
مارکیٹ پر نظر رکھنے والے افراد کے مطابق، موبائل فون کے ذریعے رہن رکھوانے کا رجحان اگلی نسل کے لیے مالی اعانت فراہم کر سکتا ہے۔
Comments are closed.