سلاخوں کے پیچھے تنہائی کا درد: نیویارک میں 15 دن سے زیادہ قید تنہائی پر پابندی، لیکن ہزاروں اس رعایت سے محروم
- ہلری اینڈرسن
- بی بی سی نیو یارک
تصور کریں اگر آپ کو برسوں ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں تنہا گزارنے پڑیں جہاں آپ کے کانوں میں دوسرے لوگوں کی آوازیں آتی ہوں جو ذہنی کرب کے باعث چِلاّ رہے ہوں؟ امریکہ کے بیشتر قید خانوں میں قید تنہائی بالکل ایسی ہی ہے، جہاں اس تنہائی کی مدت کی کوئی قانونی حد نہیں۔
کینڈی ہیلی دو بچوں کی ماں ہیں ان پر یہ سب گزرا ہے۔
انہیں سنہ 2012 میں اقدام قتل کے الزام میں نیویارک کی ریکرز آئی لینڈ کی جیل بھیجا گیا تھا۔ یہ الزام بھی بعد میں واپس لے لیا گیا تھا۔
ہیلی کہتی ہیں ’میں جہنم میں چلی گئی تھی، یہ قید خانہ ایک لفٹ جیسا تھا جہاں آپ چوبیسوں گھنٹے کے لیے پھنس جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا ریکرز میں ان پر گارڈز نے ضوابط کی معمولی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا جس کے بعد انہیں تین سال تک قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ ہیلی کی کلائیوں پر گہرے زخموں کے نشان ہیں، انھیں خود کشی کے خیالات آتے تھے۔
یہ بھی پڑھیے:
ان کا کہنا تھا ’آپ صرف خودکشی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ میں نے گولیاں کھائیں، میں نے کلائیاں کاٹ لیں۔‘
امریکی ریاست نیویارک 15 دن سے زیادہ قید تنہائی پر پابندی عائد کرنے والے قانون کو لاگو کرتے ہوئے پہلی امریکہ ریاست بن گئی ہے جس نے اقوامِ متحدہ کے منڈیلا قوانین اپنائے ہیں جو حد سے زیادہ تنہائی کو تشدد قرار دیتے ہیں۔
وبا سے پہلے امریکہ میں قید تنہائی کاٹنے والے افراد کی تعداد اندازاً 60 ہزار تھی جو بڑھ گئی ہے کیونکہ کووڈ کی وجہ سے قیدیوں کو ان کے سیلز تک محدود کر دیا گیا ہے۔
کینڈی ہیلی نے کئی سال قید تنہائی میں گزارے
قید تنہائی کا مقصد خطرناک قیدیوں کو دوسرے قیدیوں سے الگ کرنا ہوتا ہے تاکہ خطرے کا شکار قیدیوں کو جز وقتی طور پر محفوظ رکھا جا سکے۔
لیکن امریکہ میں قید تنہائی کو زیادہ بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے اور یہ صرف کووڈ کے قرنطینہ تک محدود نہیں۔
ایسے قیدی جو معمولی جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں اور ان کی اکثریت ذہنی امراض کا شکار ہوتی ہے انہیں قید تنہائی میں ڈال دیا جاتا ہے۔
قید تنہائی کو امریکہ میں سن اٹھارہ سو نوے کی دہائی میں خطرناک قرار دے کر اس کی مذمت کی گئی تھی تاہم سنہ 1983 میں قیدیوں کے ہاتھوں دو پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد یہ دوبارہ متعارف ہوئی۔
نیویارک شہر کے جیلوں کے نظام میں چیف میڈیکل آفیسر کے طور پر کام کرنے والے ہومر وینٹرز کا کہنا ہے کہ بیک وقت دسیوں ہزاروں افراد کو برسوں کے لیے قید تنہائی میں ڈالا جاتا ہے۔
حالانکہ طبی شواہد موجود ہیں کہ قید تنہائی کی وجہ سے شدید نفسیاتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
وینٹرز کہتے ہیں ’میرے کئی مریض ہیں جو بہت جلد ہی سمعی فریب اور حتی کہ بصری فریب کا بھی شکار ہونے لگے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’یہ اس لیے ہے کیونکہ انسانیت کو درکار تمام جزئیات جن میں لوگوں سے کلام کرنا، دوسروں سے رابطہ قائم کرنے کی صلاحیت، وقت سے متعلق آگہی سب کچھ چھین لیا جاتا ہے۔‘
بلی بلیک کو نیویارک کی ایک جیل میں قتل کے سزا یافتہ مجرم کے طور ہر 34 سال تک قید تنہائی میں رکھا گیا۔ ان کا کہنا تھا دوسرے قیدی باقاعدگی سے وہاں فضلہ پھینکتے، دروازے بجاتے یا ساری رات چیخیں مارتے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں اپنا ضبط ٹوٹنے سے بچانے کے لیے خود کو روکنا پڑتا تھا۔
وہ کہتے ہیں ’میں نے بیمار لوگوں کو بارہا آگے پیچھے جھولتے دیکھا ہے۔ میں نے بھی جھولنا شروع کر دیا اور پھر میں نے خود کو روکا۔ یہ حرکت پاگل لوگ کرتے ہیں۔‘
’اس کے بعد وہ فضلے سے کھیلنا شروع کر دیتے ہیں اور فرش پر پیشاب کرتےہیں۔ میں اپنے ساتھ یہ نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔‘
یہ بات امریکی عدالتیں نہیں بلکہ جیل کے منتظمین طے کرتے ہیں کہ کس قیدی کو قید تنہائی میں ڈالنا ہے اور کتنے عرصے کے لیے۔ کچھ کیسوں میں یہ ہوش مندی اور پاگل پن کے درمیان تک رہتا ہے اور اور کچھ میں یہ زندگی اور موت کے درمیان۔
مطالعوں کے مطابق ایسے افراد جنہیں چھ مرتبہ قید تنہائی میں رکھا گیا ان میں اپنی جانے لینے کا رجحان زیادہ تھا حتی کے رہائی کے ایک سال تک ان میں خودکشی کا خطرہ بہت زیادہ تھا۔
اپنی رہائی کے چھ سال بعد کینڈی ہیلی میں شدید ڈپریشن اور پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کی تشخیص ہوئی ہے ان کا الزام ہے کہ قید تنہائی کے دوران ان کا ریپ کیا گیا۔
وہ کہتی ہیں ’اگر میں خود کشی کرتی ہوں تو اس کی وجہ قید تنہائی ہو گی۔‘
قید تنہائی میں رہنے والوں اور ایسی قید خانوں میں کام کرنے والوں کے بیانات کے مطابق گارڈز کی جانب سے قیدیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات معمول ہیں۔
ریکرز آئی لینڈ جیل نے ہیلی کے معاملے پر موقف دینے سے منع کر دیا۔
اگر قید تنہائی ہیلی جیسے ایک ذہنی طور پر صحت مند انسان کو تباہ کر سکتی ہے تو یہ بچوں کے ساتھ کیا کرے گی؟
سولن پیٹرسن ایک 13 سال لڑکا جسے توجہ کی کمی کے باعث لاحق ہونے والا عارضہ اٹینشن ڈیفیسٹ ہائپر ڈِس آرڈر (اے ڈی ایچ ڈی) لاحق تھا، اس نے سنہ 2019 میں فروری کے مہینے میں ایک جمعے کو سکول کے قریب ایک کوڑے دان میں آگ لگا دی۔ اسے بچوں کی جیل لے جایا گیا، وہاں بدسلوکی کے بعد اسے قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔
ان کے والد رونی پیٹرسن کو کچھ دن بعد ان سے ملنے کی اجازت دی گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں اس سے صرف چار انچ کی ایک چھوٹی سی کھڑکی کے ذریعے بات کر سکتا تھا۔
’آپ سمجھ سکتے تھے کہ اسے تنہائی میں رہنا کتنا تکلیف دہ لگ رہا ہوگا۔ وہ دیواروں پر مکے مار رہا تھا اور اس کی انگلیوں کے جوڑوں پر خراشیں تھیں۔‘
سیلون پیٹرسن
انہیں بتایا کہ کہ ان کے بیٹے کو جلد رہا کر دیا جائے گا لیکن قید تنہائی میں پانچ راتیں گزارنے کے بعد بھی وہ اسی قید خانے میں تھا۔
اس کے والد کا کہنا تھا ’مجھے دو بجے فون آیا کہ وہ مر گیا ہے۔‘
سولن نے 13 سال کی عمر میں خود کو پھانسی لگا لی۔
رونی پیٹرسن کا کہنا تھا ’میں سُن ہو گیا۔ ہمیں ذرا بھی شبہ نہیں ہوا کہ وہ خود کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ وہ ایک عام سا نوجوان تھا۔‘
امریکہ کی وفاقی جیلوں میں بچوں کو قید تنہائی میں رکھنے پر پابندی عائد ہے تاہم کئی ریاستوں اور مقامی حراستی مراکز میں قید تنہائی میں رکھنا معمول کی بات ہے۔
سیلون کی قبر شیروی پورٹ کے پاس ہے جہاں اس کے ساتھ ہی ان کی آئس ہاکی کی سٹک بھی زمین میں گاڑی گئی ہے۔
امریکہ میں قید تنہائی سے متعلق تبدیلیاں آ رہی ہیں اور اصلاحات کی کوششوں کی سخت مخالفت بھی کی جا رہی ہے۔
نیویارک میں نیا قانون ایک سال تک قابل عمل نہیں ہوگا اور گورنر اینڈیو کومو نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اس میں تبدیلیوں کے لیے مذاکرات کریں گے۔
نیویارک سٹی نے بالغوں کے تمام حراستی مراکز میں 22 سال سے کم عمر قیدیوں کو قید تنہائی میں رکھنے پر پابندی ہے اور اب امکان ہے کہ پوری ریاست میں اس پر عمل کیا جائے گا۔
نئے قانون کے مطابق کئی گروہوں کے لیے قید تنہائی پر مکمل پابندی ہوگی جن میں بچے اور معذوری کا شکار افراد شامل ہیں۔
لیکن قید خانوں کے افسران کا کہنا ہے کہ یہ اصلاحات فضول ہیں۔
نیویارک میں ایسے مراکز کے اہلکاروں کی تنظیم کے صدر بینی بوسکیو کا کہنا تھا ’اس سے صرف جیلوں میں تشدد بڑھے گا۔‘
ان کا کہنا تھا ’ہماری ساکھ بری بنا دی گئی ہے جیسے ہم کوئی عفریت ہیں جو قیدیوں کا استحصال کرتے ہیں۔‘
’لیکن ہم ایسے قیدیوں کے ساتھ کیا کریں جو دوسرے قیدیوں کے چہروں پر زخم لگاتے یا اہلکاروں کے چہرے بگاڑ دیتے ہیں۔
تاہم وینٹرز کا کہنا ہے کہ اس کا متبادل ہے کہ قیدیوں کو دن میں 23 گھنٹے تنہا رکھیں۔
نیویارک شہر کے جیلوں کے نظام میں چیف میڈیکل آفیسر کے طور پر کام کرنے والے ہومر وینٹرز
ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے کئی قیدخانوں میں کام کیا ہے جہاں لوگ دن میں کئی گھنٹوں کے لیے باہر نکلتے جس کے دوران ان سے کام کروائے جاتے، لوگوں سے بات کرتے لیکن محفوظ انداز میں۔‘
وہاں ریاست نیو یارک میں بلی بلیک نے تبدیلیوں سے متعلق خبر سنی۔ 34 سال قید تنہائی کاٹنے کے بعد انہیں دوسرے قیدیوں کے ساتھ رہنے کی اجازت ہوگی۔
اس خبر پر اپنے سیل میں قہقہہ لگاتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’مجھے لگ بھگ گھر جانے جیسا احساس ہوا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ میں انسانوں کی دنیا میں جا رہا ہوں۔ میں بہت پر جوش ہوں۔ میں پورا دن مسکراتا رہا۔ ‘
بلی تو جلد دیگر قیدیوں کے ساتھ ہوں گے لیکن امریکہ میں ہزاروں افراد برسوں تک قیدخانوں میں تنہا رہیں گے اور اپنے حواس قائم رکھنے کی کوشش کریں گے۔
Comments are closed.