اگر دنیا کا نظام نوجوان چلائیں تو کیا یہ بہتر ہوگا؟
- کیتھرین لیتھم
- بزنس رپورٹر
گُڈ انرجی کے گُڈ فیوچر بورڈ کے چھ میں سے پانچ ارکان جن کی عمریں 13 سے 17 برس ہیں
اگر دنیا کا نظام ٹین ایجرز یعنی 13 سے 19 برس کے نوجوانوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے تو یہ دنیا کیسی ہوگی؟ ایک کمپنی نے یہ ہی جاننے کی کوشش کی ہے۔
برطانیہ میں قابل تجدید توانائی (رنیو ایبل انرجی) فراہم کرنے والی کمپنی ’گُڈ انرجی‘ نے گذشتہ مارچ میں 13 سے 17 برس کے چھ نوجوانوں پر مشتمل ایک نیا ایڈوائزی بورڈ تشکیل دیا تھا۔
اس مجلسِ مشاورت کا نام گُڈ فیوچر بورڈ ہے اور یہ کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو اور دوسرے افسروں کو مشورے دیتا ہے اور ان کے کاروباری فیصلوں کے بارے میں سوال اٹھاتا ہے۔
اس بورڈ کی ایک ممبر لندن کی رہائشی 14 سالہ شائنہ شاہ ہیں۔ انھیں قدرتی ماحول سے بہت زیادہ لگاؤ ہے اور وہ اسے آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ بنانا چاہتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے، ’میرے خیال میں بالغ افراد پہلے پیسے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اکثر وہ زیادہ پائیدار راستہ نہیں اپناتے۔‘
شائنہ شاہ کہتی ہیں کہ بچوں اور نوجوان کی نظریں مستقبل میں دور تک دیکھتی ہیں
’مگر نوجوان ایک ایسی دنیا میں پروان چڑھ رہے ہیں جہاں کلائمیٹ چینج (ماحولیاتی تبدیلی) کے اثرات نمایاں ہیں۔‘
شائنہ کا کہنا ہے کہ جب ان کے خیال میں بڑوں کا فیصلہ غلط ہو تو وہ اور ایڈوائزری بورڈ کے پانچ دوسرے ارکان یہ بات کہنے میں کوئی خوف محسوس نہیں کرتے۔
ان نوجوانوں کا انتخاب انگلینڈ کے سکولوں میں ایک مقابلے کے بعد کیا گیا تھا جس میں 1000 طلبہ نے شرکت کی تھی اور جس کا اہتمام بقائے ماحول کے لیے کام کرنے والے ایک رفاہی ادارے ’اِیکو سکولز‘ نے کیا تھا۔
شرکا سے 500 الفاظ کے اندر تین سوالوں کے جواب لکھنے کو کہا گیا تھا، ہماری زمین کے بارے میں سوچنے کا خیال کیسے آیا؟ اس سلسلے میں آپ کیا تجربہ اور مہارت رکھتے ہیں؟ اور کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ قابل تجدید توانائی سے وابستہ ایک کمپنی کرۂ ارض کی بہتری کے لیے مزید کیا کچھ کر سکتی ہے؟
مقابلہ جیتنے والے چھ شرکا کو ’انتہائی پُر جوش، صاحب بصیرت اور اثر آفرین‘ شخصیات کا حامل قرار دیا گیا تھا۔
جیک سولی کو جس وقت اس ایڈوائزری بورڈ میں شامل کیا گیا تھا تو اس وقت وہ 12 سال کے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے بزنس اور انرجی مارکیٹ کے بارے میں جانے کے لیے فوراً اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ ’چند علاقوں کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے‘ بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے، ’یہ زمین انمول ہے۔ اور اگر ہم نے اس کا خیال نہ رکھا تو پھر ہمارے پاس رہنے کا کوئی ٹھکانا نہیں ہوگا۔‘
جیک سولی بزنس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے مشتاق تھے
ان کا کہنا ہے کہ بڑوں کے مقابلے میں نوجوانوں کی زیادہ ترجیح مستقبل ہے۔ ’بڑوں کی زیادہ توجہ حال پر ہوتی ہے، وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کیا ان کے افسران ان سے خوش ہیں؟ کیا انھیں ترقی ملے گی؟ بجائے اس کے کہ وہ اپنے اقدامات کے مستقبل پر پڑنے والے طویل المدتی اثرات کے بارے میں سوچیں۔
’نوجوانوں پر اس طرح کا دباؤ نہیں ہوتا اس لیے وہ مستقبل میں دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘
ان نوجوانوں کو ایڈوائزری بورڈ پر رہنے کا تو کوئی معاوضہ نہیں ملتا، البتہ جب وہ گڈ انرجی کے سالانہ عام اجلاس میں شرکت کرتے ہیں تو ان کے اخراجات ادا کر دیے جاتے ہیں۔ حال ہی میں گلاسگو میں اقوام متحدہ کی کلائمیٹ چینج کانفرنس آف یوتھ میں شرکت کے لیے ان کے اخراجات کمپنی نے اٹھائے تھے۔ یہ اجلاس کلائمیٹ سربراہ کانفرس سی او پی26 سے پہلے منعقد ہوا تھا۔
گڈ انرجی کا کہنا ہے کہ نوجوانوں پر مشتمل اس ایڈوائزری بورڈ نے اب تک اس کی تنوع اور حکمت عملی کی نظر ثانی میں مدد دی ہے، اور ’ہمارے برانڈ کے بارے میں ان کی رائے نے ہماری نئی ویب سائٹ کے، جو ہم جلد ہی لانچ کرنے والے ہیں، بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔‘
کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو نائجل پوکلِنگٹن کہتے ہیں، ’ہم نوجوانوں کے ایک متنوع گروپ کو (کلائمیٹ) بحران میں، جو بڑی نسلوں کے مقابلے میں انھیں زیادہ متاثرے کرے گا، آواز اٹھانے کا موقع دینا چاہتے تھے۔ ان سے ہمیں وہ سوچ اور خیالات ملتے ہیں جو ہمیں تجربہ کار بزنس ایگزیکٹیو نہیں دے سکتے۔‘
شائنہ اور جیک کا تعلق جنریشن زی یا جین زی سے ہے۔ یہ وہ نسل ہے جس نے انیس سو نوے کے وسط سے 2010 کی دہائی کے اوائل تک جنم لیا ہے۔
کئی سٹڈیز کے مطابق اس وقت دنیا کی آبادی کا زیادہ حصہ جین زی پر مشتمل ہے۔ ایک ایسی ہی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنریشن زی سے تعلق رکھنے والوں کی مجموعی تعداد 2.5 ارب یا کل آبادی کا 32 فیصد ہے۔ جبکہ 1981 اور 1995 کے درمیان پیدا ہونے والی ملینیئل نسل دوسرے نمبر پر ہے جو دنیا کی مجموعی آبادی کا 22 فیصد ہے۔
اکاونٹینسی گروپ ڈیلوئٹ کے ایک سروے کے مطابق جین زی کے نزدیک سب سے اہم مسئلہ ماحول ہے، اس کے بعد بے روزگاری، صحت اور تعلیم آتے ہیں۔
تحقیق بتاتی ہے کہ ماحول کے بارے میں بڑوں کے مقابلے میں نوجوانوں میں زیادہ تشویش پائی جاتی ہے
میکسین مارکس امریکی ریاست سان فرانسسکو میں قائم دی ایمبیسیڈر کمپنی کی بانی ہیں۔ یہ کمپنی ملک کے اندر مختلف مصنوعات کے بارے میں ہزاروں نوجوانوں کی رائے جاننے میں مدد دیتی ہے۔
میکسین 21 سال کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس بزنس کا خیال‘ انھیں ایک دم سے آیا۔ ’میں جب مڈل سکول میں تھی تو میرے والد، جو ایک سرمایہ کار ہیں، مجھے کلاس سے نکال کر ایک اجلاس میں لے گئے جس میں نئے بزنس آئڈیاز پر بات ہو رہی تھی۔ وہ لوگ مجھ سے مختلف طرح کے سوال پوچھ رہے تھے۔ تب مجھے اپنی رائے کی اہمت کا احساس ہوا۔‘
2017 میں 17 سالہ میکسین نے اپنے سکول کے دوستوں کے ساتھ مل کر ’دی ایمبیسیڈرز کمپنی‘ کی بنیاد رکھی۔ وہ کہتی ہیں، ’مجھے امید ہے کہ میں کوئی بامقصد کام کر سکوں گی، کوئی ایسا بزنس جو میرے بعد بھی قائم رہے۔ سٹارٹ اپ کی دنیا میں بڑا ہونے کی وجہ سے یہ بات میری ذہنی نشو و نما میں شامل ہے کہ میں اپنا ایک یونیکورن (ایک پرائویٹ کمپنی جس کی مالیت ایک ارب ڈالر ہے) بناؤں۔‘
اپنی کمپنی کے لیے میکسین مارکس کے عزائم بڑے بلند ہیں
جنریشن زی سے تعلق رکھنے والے بہت سے نوجوانوں کو اضافی خوراک کے ضائع ہونے پر بھی تشویش ہے۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں کھانے کے لیے دستیاب خوراک کا تیسرا حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ اس بات کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو ہر عمر کے افراد کو اس موضوع پر بات کرنی چاہیے۔
امریکی ریاست کولوراڈو کی سوفی وارن کہتی ہیں کہ جب ان کے والدین نے شہد کی مکھیاں پالنا شروع کیں تو وہ بہت چھوٹی تھیں۔ مگر وہ اور ان کی بڑی بہنیں کلوئی اور لِلی چھتّوں سے شہد نکلنے کے بعد بچ جانے والے بہت سارے موم کو ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھیں۔
سترہ سالہ سوفی کہتی ہیں، ’ہم نے دیکھا کہ بڑی مقدار میں موم بچ جاتا ہے۔ ہم اسے پھینکنا نہیں چاہتی تھیں کیونکہ اسے بنانے میں شہد کی مکھیوں نے اتنی محنت جو کی تھی۔ اس لیے پھینکنے کی بجائے ہم نے اس سے ہونٹوں کے لیے بام یا لیپ بنانا شروع کر دیا۔‘
یہ بھی پڑھیے
سنہ 2009 میں جب سوفی 5، کلوئی 7 اور لِلی 9 برس کی تھیں تو تینوں بہنوں نے (والدین کی تھوڑی بہت مدد سے) سویٹ بی سِسٹرز کے نام سے ایک کاسمیٹکس کمپنی بنائی اور ہونٹوں کے لیے بام یا لیپ فروخت کرنا شروع کر دیا۔
یہ فرم اب جِلد کی حفاظت کے لیے کئی منصوعات فروخت کرتی ہے، اور ان بہنوں کو توقع ہے کہ دوسرے بچے اور نوجوان کے نقش قدم پر چل کر ماحول دوست کاروباری بن سکیں گے۔
سوفی کا کہنا ہے، ’ہم چاہتی ہیں کہ دوسرے نوجوان ہمارے ساتھ شامل ہوں۔ ہم امید ہے کہ ہماری نسل دنیا کو بدل دے گی۔‘
واپس گڈ انرجی کی طرف آتے ہیں۔ بورڈ کی ایک 17 سالہ رکن ماہ نور کامران کہتی ہیں کہ گروپ کمپنی کی ’بزنس پالیسیوں، ماحولیاتی پالیسیوں اور اخلاقیات‘ کو زیرِ بحث لاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے لیے وقتی فائدہ یا نفع اہم نہیں ہے۔ ہم نوجوانوں کے لیے ہمارا مستقبل زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ میرے خیال میں ہم ہر حال میں اپنی زمین کو مالی فائدے کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیں گے۔‘
 
 
						




Comments are closed.