سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کیس کا 58 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا، فیصلے میں 2 صفحات پر مشتمل جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ اکثریتی فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا، میرے نزدیک کیس کا بنیادی سوال نیب ترامیم نہیں، پارلیمان کی بالا دستی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر اختلافی نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ فیصلہ منتخب نمائندوں کے ذریعے اختیارات کے استعمال کے آئینی اصول سے مطابقت نہیں رکھتا، نیب قانون کا اکثریتی فیصلہ خود بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ اکثریتی فیصلہ کل رات کو موصول ہوا، میں اس فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا، اتنے کم وقت میں اختلاف کی وجوہات تحریر نہیں کر سکتا، تفصیلی اختلافی نوٹ بعد میں جاری کروں گا۔
اختلافی نوٹ میں جسٹس منصور نے لکھا کہ میرے نزدیک کیس کا بنیادی سوال نیب ترامیم نہیں، پارلیمان کی بالا دستی ہے، پارلیمان پاکستان کے 24 کروڑ عوام کے چنے گئے نمائندوں کا ایوان ہے، یہ سوال پارلیمانی آئینی جمہوریت کی اہمیت کا ہے، یہ سوال ریاست کے 3 ستونوں اور طاقت کی تقسیم کا ہے، یہ معاملہ محدود عدالتی حدود کا ہے جس میں غیر منتخب ججز ہوتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ بنیادی حقوق سمیت کسی قانون کی واضح خلاف ورزی نہیں ہوئی، فیصلہ منتخب نمائندوں کے ذریعے اختیارات کے استعمال کے آئینی اصول سے مطابقت نہیں رکھتا، فیصلہ اختیارات کی تقسیم (ٹرائیکا ٹومی آف پاور) کے اصول سے مطابقت نہیں رکھتا۔
جسٹس منصور نے مزید لکھا کہ اکثریت ایک پارلیمنٹیرین کے اس غیرآئینی مقصد کا شکار ہوگئی ہے جس کے تحت قانون سازی کے مقصد اور پالیسی سے متعلق سیاسی بحثت کو پارلیمان سے نکال کر عدالت میں لانا ہے۔
Comments are closed.