اڑنے والی کار کا آزمائشی ماڈل تیار مگر یہ اڑان کیوں نہیں بھر رہی؟
اب تک ایلف کی فلائنگ کار ’ماڈل اے‘ کی عوامی سطح پر آزمائش نہیں کی گئی
- مصنف, ایڈریئن برنہارڈ
- عہدہ, بی بی سی فیوچر
اڑان کے ایک نئے دور کی ابتدا ہو رہی ہے۔ 12 جون 2023 کو امریکہ کی وفاقی ایوی ایشن کی انتظامیہ (ایف اے اے) نے ایلف ایروناٹکس نامی کمپنی کی تیار کردہ ’فلائنگ کار‘ کو ایک خصوصی اجازت نامہ جاری کیا ہے جس کے تحت اسے نمائشی، تحقیقی اور پیداواری اعتبار سے محدود مقامات پر اڑایا جا سکے گا۔
اس صنعت کو ’ایڈوانس ایئر موبیلیٹی‘ (اے اے ایم) کہتے ہیں جس میں اڑنے والی مسافر کاریں یا چھوٹے کارگو جہاز شامل ہیں جو اعلیٰ سطح پر آٹومیٹڈ ہوتے ہیں۔ انھیں اکثر ’ایئر ٹیکسی‘، ’ورٹیکل ٹیک آف اینڈ لینڈنگ‘ (وی ٹی او ایل) جہاز بھی کہا جاتا ہے۔
نظریاتی طور پر یہ گاڑیاں تیز رفتار اور محفوظ ذرائع آمد و رفت ہیں۔ انھیں تعمیراتی انفراسٹرکچر یا سڑکوں پر ٹریفک جام بھی نہیں روک سکتے۔
عرصہ دراز سے اڑنے والی گاڑیاں ایک خواب تک محدود رہی ہیں مگر ایف اے اے کی جانب سے ایلف کی گاڑی کو اجازت نامہ دینا ہوائی سفر کے مستقبل کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔
تاہم دنیا بھر کے شہروں میں فلائنگ گاڑی کو حقیقت بنانے میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں جس کے بعد ہی ہم یہ دیکھ سکیں گے کہ ڈرون اور اڑنے والی گاڑیاں ایک ساتھ اڑان بھریں، زمین پر لینڈ کریں اور آسمان میں ایک دوسرے کے پاس سے گزریں۔
ایلف کے بانیوں نے 2015 میں اس نظریے پر کام کرنا شروع کیا اور 2019 میں آزمائشی طور پر ’ماڈل اے‘ نامی ایک پروٹوٹائپ بنایا۔ اس مسافر کار میں دو افراد بیٹھ سکتے ہیں، اس کی ڈرائیونگ رینج 322 کلو میٹر اور فلائنگ رینج 177 کلو میٹر ہے۔ اسے فی الحال سڑکوں پر چلانے کی اجازت بھی ہے۔
اس کا ڈائزائن کسی بھی عام مسافر گاڑی جیسا ہے۔ اسے اڑنے کے لیے کسی رن وے کی ضرورت نہیں جبکہ اسے آسانی سے کسی عام گاڑی کی جگہ پر پارک کیا جا سکتا ہے۔
کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ کار ورٹیکل یا عمودی رُخ میں ٹیک آف کر سکتی ہے اور فضا میں پہنچ کر کسی جہاز کی طرح اڑ سکتی ہے۔ اس کے دروازے پر میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس سب کا مقصد یہ ہے کہ ڈرامائی انداز میں روزمرہ کے آمدورفت میں انقلاب برپا کیا جائے۔
کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق اب تک 2019 میں صرف چند سرمایہ کاروں نے ماڈل اے کی اڑان دیکھی ہے۔
مگر اب بھی کئی تکنیکی چیلنج موجود ہیں۔ ایلف ایروناٹکس کے سربراہ جم ڈخونی نے کہا ہے کہ ’جو پرزے ہمیں درکار ہیں وہ آج کی دنیا میں وجود نہیں رکھتے۔‘
’مثلاً بڑے اور چھوٹے پرزوں کے بیچ تناؤ دور کرنے کے لیے ہمیں خصوصی طور پر تیار کردہ پروپیلر موٹر سسٹم درکار ہے۔‘
ایسی گاڑیاں کب عوام کے لیے دستیاب ہوں گی، اس کا دار و مدار کار کے حجم، وزن اور قیمت پر ہوگا۔ سوال یہ بھی ہے کہ یہ کتنی محفوظ ہوں گی۔
کیلیفورنیا میں قائم اس کمپنی کو امید ہے کہ وہ 2025 یا 2026 کے اوائل میں اڑنے والی گاڑی بنانا شروع کر دیں گے۔ فی الحال اس کی بکنگ تین لاکھ ڈالر کے عوض جاری ہے۔ تاہم ایلف کا خیال ہے کہ وہ اس کی قیمت کو کم کر کے 35 ہزار ڈالر تک لے آئیں گے۔
فلائنگ کارز کو شور کے ساتھ ساتھ حفاظتی چیلنجز کا بھی سامنا ہوگا
ماڈل اے کو کم وزنی اور کم رفتار والی ’لو سپیڈ وہیکل‘ سمجھا جاتا ہے۔ یہ درجہ بندی گالف کار یا چھوٹی الیکٹرک گاڑیوں کے لیے محدود ہوتی ہے۔ نیشنل ہائی وے سیفٹی ایڈمنسٹریشن نے ان کے لیے سخت قوائد و ضوابط بنائے ہوئے ہیں۔
ڈخونی کا کہنا ہے کہ ’جب گھوڑوں کی جگہ گاڑیوں نے لی تب بھی ایسے ہی سوالوں نے جنم لیا: یہ کتنی محفوظ ہیں، ان سے شہروں کا کیا حال ہوگا۔۔۔ کئی لوگ دوبارہ گھوڑوں پر جانا چاہتے تھے۔ اگر اسے صحیح طور پر کیا گیا تو فلائنگ کارز محفوظ ہوں گی۔‘
ماڈل اے کا مقصد ایک ایسی کم وزنی گاڑی ہے جو ایئرو ڈائنیمک خوبیوں کی بدولت اڑان بھی بھر سکے۔ لہذا محفوظ فضائی سفر کا مطلب سڑکوں پر کم محفوظ ہونا ہے۔
نظریاتی طور پر کار کی زمین سے ہوا میں فوری منتقلی ہونی چاہیے لیکن اس کے پس پشت کچھ پیچیدہ قانونی اور حفاظتی مسائل ہیں۔
شہروں میں اڑنے والی گاڑیوں کے حفاظتی اور قانونی پہلوؤں کی نگرانی کی ذمہ داری ملک کی سول ایوی ایشن پر عائد ہوگی۔ ’ایئر نیویگیشن سروس پرووائیڈر‘ یا اے این ایس پی کے پاس ملک میں فضائی آپریشنز کا کنٹرول ہوتا ہے، یہی اتھارٹی مختلف جہازوں کو حفاظتی جائزوں کے بعد اجازت نامے جاری کرتی ہے۔ شہری کا کردار یہ ہوگا کہ وہ اس کی جانب سے عائد کردہ قوائد و ضوابط کو نافذ کریں۔
ایف اے اے کی جانب سے جاری کردہ بلیو پرنٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فلائنگ کار کے آپریشن پر شروع میں موجودہ قوانین و ضوابط (جیسے اڑان اور جہاز کے اصول) لاگو ہوں گے تاکہ جہازوں کی کارکردگی کو بہتر رکھا جائے اور خودمختاری دی جائے۔
رپورٹ میں کچھ موضوعات پر تشویش ظاہر کی گئی ہے مگر ان کا حل نہیں بتایا گیا جیسے شور، آلودگی، سکیورٹی، استحکام اور قیمت۔
یہ فلائنگ کارز کون چلائے گا؟ کیا ڈرائیور کو لائسنس درکار ہوگا؟ کم اونچائی پر اڑنے والی گاڑیوں سے علاقہ مکینوں کی زندگی کیسے متاثر ہوگی؟ فضائی حادثے کی صورت میں یہ معاملہ کس کی حدود میں آئے گا؟
جس رفتار سے یہ گاڑیاں سفر کریں گی اس سے عمارتوں یا دوسری کاروں سے ٹکر کا امکان بڑھ سکتا ہے۔ لہذا سائنسی بنیادوں پر درست راستے کی منصوبہ بندی ضروری ہوگی۔
ایف اے اے کا خیال ہے کہ شہروں میں ایئر پورٹ اور ورٹیپورٹ کے درمیان خصوصی گزر گاہوں پر ’ایئر ٹیکسی‘ آپریٹ کر سکیں گی۔ تاہم اب تک اڑنے والی گاڑیوں کے راستوں کی منصوبہ بندی سے متعلق کوئی شق موجود نہیں۔
یہاں شور کا مسئلہ بھی موجود ہے۔ خاموشی سے اڑنے والی فلائنگ کار کو ڈیزائن کرنا مشکل ہے، خاص کر بڑی سطح کے کمرشل آپریشن کے لیے جہاں ہر گھنٹے ہزاروں ٹیک آف اور لینڈنگز ہوں گی۔
الیکٹرک پروپیلرز اور دیگر ڈیزائنز کی مدد سے شور کی آلودگی کم رکھی جا سکتی ہے۔ شہری منصوبہ سازوں کو لینڈنگ کے مقامات پر شور کی سطح کا تعین کرنا ہوگا مگر شور کو کم رکھنے کے لیے حکومتی سطح پر قوانین درکار ہوں گے۔
موجودہ قوائد و ضوابط سے ایئر انفراسٹرکچر قائم ہوسکتا ہے، یعنی اس تناظر میں جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے لیے استعمال ہونے والے اعداد و شمار استعمال ہوسکتے ہیں۔
یہ چیز واضح ہے کہ اڑنے والی گاڑیاں ٹریفک کے دباؤ کا حل ثابت نہیں ہوسکیں گی
ایڈوانس ایئر موبیلیٹی کے شور کی پیشگوئی کے سافٹ ویئر ٹول کے لیے ناسا نے ایف اے اے، یونیورسٹی کے محققین اور صنعتی رہنماؤں کے ساتھ شراکت کی ہے۔ اس سے خاموشی سے چلنے والی ایسی گاڑیاں بنائی جا سکیں گی۔
اس مہم میں شور کا انسانوں پر اثر دیکھا جائے گا اور یہ پیشگوئی کی جائے گی کہ فلائنگ کار کی اڑان سے کتنی آواز پیدا ہوگی۔
ماحولیات کے حوالے سے ڈیزائن اور انجینیئرنگ سروسز فراہم کرنے والی ایک برطانوی کمپنی ایرپ نے حال ہی میں ایک اجلاس بلایا جس میں ہوائی سفر کے امکان اور نقصانات پر بات کی گئی۔
سان فرانسسکو میں ایرپ کے رکن بائرن تھربر نے کہا کہ ’شہری انتظامیہ کاروباری لائنسنس کے ذریعے کنٹرول بڑھا سکتی ہیں۔ بلدیاتی ادارے ایئر لائن اور ایئرپورٹس کی طرح کمرشل سطح پر ایئر موبیلیٹی سروسز کے نظام کی لائسنس کے ذریعے نگرانی کر سکتے ہیں۔ اس میں کرفیو کے دورانیے، بعض علاقوں میں اڑان کی اونچائی اور فیس جیسے موضوعات آ سکتے ہیں۔ یعنی شہری انتظامیہ یہ اصول طے کر سکتی ہے کہ ایئر ٹیکسی سروس کب اور کیسے چلائی جاسکے گی۔‘
یہ ممکن ہے کہ ٹریفک جام سے متاثرہ لاس اینجلس اس نظام کو اپنانے والا پہلا شہر بن جائے۔ مگر فلائنگ کارز ٹریفک کی روانی کو کیسے بحال کریں گی؟
تھربر نے کہا کہ ’یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ایئر موبیلیٹی ٹریفک جام کا مسئلہ حل نہیں کر سکتی۔ درحقیقت آسمان میں گاڑیوں کی تعداد زمین کے اعتبار سے اتنی ہوگی، اگر ایسا ہوا تو ٹریفک کا دباؤ آسمان پر ہوگا۔‘
ممکنہ طور پر گنجان آباد شہری علاقوں، جیسے مرکزی لندن یا نیو یارک میں مصروف وقتوں میں ایئر ٹیکسی کا استعمال شروع ہوجائے۔ آغاز میں یہ سہولت صرف امیر مسافروں کے پاس ہوگی، جیسا کہ کمرشل ایوی ایشن کے آغاز میں ہوا کرتا تھا۔
پیداوار میں اضافے کی بنیاد پر شاید فلائنگ کارز سستی ہوجائیں، خاص کر اگر شہری انتظامیہ یہ سروس کم آمدنی والے علاقوں میں لانے کے لیے کمپنیوں کے ساتھ تعاون کریں۔
سنہ 2021 میں لاس اینجلس ڈیپارٹمنٹ فار ٹرانسپورٹیشن نے ایرپ کے ساتھ معاہدہ کیا تاکہ اربن ایئر موبیلیٹی کے قوائد و ضوابط پر سفارشات پر مبنی رپورٹ تیار کی جاسکے۔ اس میں خاص دھیان مساوات پر دیا گیا۔
رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ فلائنگ کارز کو بلدیاتی سروس اور عوامی فلاح کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
ایک بار جب اس نظریے کے شواہد سامنے آجائیں تو کڑی آزمائش اور حفاظتی انتظامات کیے جانے چاہییں۔ جدید ایئر موبیلیٹی کی سروس کو کسی لائبریری، سکول، ایئر پورٹ یا سڑک کی طرح کام کرنا چاہیے، نہ کہ کسی انقلابی ٹیکنالوجی کی طرح تاکہ اسے پوری کمیونٹی کا اثاثہ سمجھا جائے۔
Comments are closed.