اپنی والدہ کی تلاش میں شمالی کوریا سے فرار ہونے والی لڑکی: ’ایک ایک کر کے میرے خاندان والے گم ہو رہے تھے‘
اپنی والدہ کی تلاش میں شمالی کوریا سے فرار ہونے والی لڑکی: ’ایک ایک کر کے میرے خاندان والے گم ہو رہے تھے‘
- مصنف, جین مکینزی
- عہدہ, بی بی سی سیئول
سونگمی پارک نے دریا پار کرنے سے قبل کنارے پر اپنے پاؤں مضبوطی سے جما لیے۔ وہ جانتی تھیں کہ اس موقع پر اُن کو خوفزدہ ہونا چاہیے کیونکہ دریا گہرا تھا اور پانی کا بہاؤ تیز۔ اگر وہ پکڑی جاتیں تو سزا یقینی تھی۔ شاید ان کو گولی مار دی جاتی۔
لیکن اس موقع پر اُن کو خوف سے زیادہ طاقتور جذبے کا احساس ہوا۔ وہ اپنی اُس والدہ کی تلاش میں شمالی کوریا سے فرار ہو رہی تھیں جو پچپن میں اُن کو چھوڑ گئی تھیں۔
شام کی دھندلی تاریکی میں دریا کے یخ بستہ پانیوں سے گزرتے ہوئے ان کو محسوس ہوا جیسے وہ ہوا میں اڑ رہی ہوں۔
یہ 31 مئی 2019 کی شام تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں اپنی زندگی کا سب سے اچھا اور سب سے بُرا دن کیسے بھول سکتی ہوں؟‘
شمالی کوریا سے فرار ہونے کی کوشش خطرناک اور مشکل کام ہے۔ حالیہ برسوں میں شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان نے ایسی کوشش کرنے والوں سے سختی سے نمٹا ہے۔ کورونا کے آغاز پر انھوں نے ملک کی سرحدوں کو بند کر دیا تھا۔ 17 سالہ سونگمی وہ آخری فرد تھیں جو اس پابندی سے قبل ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئیں۔
یالو دریا کو سونگمی دوسری بار پار کر رہی تھیں۔ یہ دریا شمالی کوریا اور چین کے درمیان بہتا ہے اور فرار کا سب سے آسان راستہ بھی ہے۔
پہلی بار دریا پار کرتے ہوئے وہ اپنی والدہ کی پیٹھ سے بندھی ہوئی تھیں۔ وہ وقت آج بھی ان کے ذہن پر ایسے نقش ہے جیسے کل ہی کی بات ہو۔
ان کو اپنے ایک عزیز کے فارم پر چھپنا یاد ہے جہاں ریاست کی پولیس ان کی تلاش میں آئی۔ ان کو یاد ہے کہ ان کی والدہ اور والد نے فریاد کی تھی کہ ان کو واپس نہ بھیجا جائے۔ ان کے عزیز نے رو کر کہا ان کی جگہ مجھے بھیج دیں۔ پولیس نے ان کو اتنا پیٹا کہ ان کے چہرے سے خون بہنا شروع ہو گیا تھا۔
شمالی کوریا واپسی پر ان کو یاد ہے کہ ان کے والد کے ہاتھ کمر کے پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ ان کو یہ بھی یاد ہے کہ وہ ایک ٹرین سٹیشن کے پلیٹ فارم پر کھڑی تھیں اور اپنے والدین کو شمالی کوریا کی بدنام زمانہ جیل جاتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ اس وقت ان کی عمر چار سال تھی۔
سونگمی کو ان کے والد کے والدین کے پاس بھیج دیا گیا جو چین کی سرحد سے ڈیڑھ گھنٹا دور موسن قصبے میں رہتے تھے۔ ان کو بتایا گیا تھا کہ وہ سکول نہیں جا سکتیں۔
شمالی کوریا میں تعلیم مفت ہے لیکن خاندانوں کو اساتذہ کو رشوت دینا پڑتی ہے اور سونگمی کے دادا دادی غریب تھے۔
انھوں نے اپنا بچپن قصبے میں گھومتے ہوئے گزارا۔ وہ اکثر بیمار رہتی تھیں۔ ’میں زیادہ نہیں کھاتی تھی اور میرا جسمانی دفاعی نظام کمزور تھا۔ لیکن جب میں بیماری کے بعد جاگتی تھی تو کھڑکی پر دادی کا رکھا ہوا کھانا ملتا تھا۔‘
ایک شام جب ان کے والدین کو جیل گئے پانچ سال ہو چکے تھے، ان کے والد اچانک نمودار ہوئے اور ان کو اپنی بانہوں میں لے لیا۔ وہ بے انتہا خوش ہوئیں۔ زندگی ایک بار پھر شروع ہو سکتی تھی۔ لیکن تین ہی دن بعد ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ جیل کی زندگی نے ان کی صحت پر بُرا اثر ڈالا تھا۔
جب ایک ہفتے بعد سونگمی کی والدہ کو واپس آ کر یہ خبر ملی تو ان کا برا حال ہو گیا۔ انھوں نے ایک ناقابل یقین فیصلہ کیا۔ اور وہ یہ کہ وہ ایک بار پھر شمالی کوریا سے فرار ہونے کی کوشش کریں گی۔ اور وہ بھی تنہا۔
جس صبح سونگمی کی والدہ روانہ ہوئیں، ان کو محسوس ہوا کہ کچھ مختلف تھا۔ ان کی والدہ نے عجیب سا لباس پہن رکھا تھا جو ان کی دادی کا تھا۔
’میں نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا سوچ رہی تھیں لیکن میں جانتی تھی کہ اگر وہ چلی گئیں تو میں بہت عرصے تک ان کو نہیں دیکھ سکوں گی۔‘
ان کی والدہ جیسے ہی گھر سے نکلیں، سونگمی نے بستر کی چادر میں سر چھپا لیا اور رونے لگیں۔
اگلے 10 سال ان کے لیے نہایت مشکل ثابت ہونے والے تھے۔
دو سال کے اندر ان کے دادا کا انتقال ہو گیا۔ 10 سال کی عمر میں سونگمی تنہا تھیں۔ ان کو اپنی بیمار دادی کا بھی خیال رکھنا تھا۔ آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔
’ایک ایک کر کے میرے خاندان والے گم ہو رہے تھے۔ یہ سب بہت ڈراؤنا تھا۔‘
ہر صبح سونگمی دو گھنٹے سفر کرتی اور پہاڑوں میں جا کر کھانے اور بیچنے کے لیے پودوں کی تلاش کرتیں۔
چند بوٹیاں مقامی مارکیٹ میں بطور دوا بک سکتی تھیں لیکن اس سے پہلے ان کو دھونا، صاف کرنا اور خشک کرنا ہوتا جس کے لیے ان کو رات دیر گئے تک کام کرنا پڑتا۔
’میرے پاس اگلے دن کے لیے کام کرنے یا منصوبہ بندی کا وقت نہیں تھا۔ ہر دن میری کوشش ہوتی تھی کہ میں بھوکی نہ رہوں، اور یہ کہ یہ دن گزر جائے۔‘
300 میل دور میونگ ہوئی جنوبی کوریا پہنچ چکی تھیں۔
ایک سال تک چین کا سفر کرنے کے بعد لاؤس اور تھائی لینڈ سے ہوتے ہوئے وہ جنوبی کوریا کے ایک سفارت خانے تک پہنچیں۔
جنوبی کوریا کی حکومت نے شمالی کوریا سے فرار ہونے والوں کو بسانے کا معاہدہ کر رکھا ہے اور میونگ ہوئی کو سیول پہنچا دیا گیا۔
انھوں نے جنوبی کوریا کے جنوبی ساحلی قصبے السن میں بحری جہاز بنانے والی فیکٹری میں ان جہازوں کی صفائی کا کام شروع کر دیا تاکہ اپنی بیٹی کے فرار کے لیے رقم کا بندوبست کر سکیں۔
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے ہر دن کام کیا کیوںکہ شمالی کوریا سے فرار ہونا مہنگا عمل ہے۔ اس کے لیے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو تمام مشکلات کو پار کرنا جانتا ہو اور راستے میں رشوت کے ذریعے رکاوٹیں دور کر سکتا ہو۔
رات کے وقت میونگ ہوئی تاریکی میں تنہا بیٹھ کر اپنی بیٹی کے بارے میں سوچتیں کہ وہ کیا کر رہی ہو گی اور اب کیسی نظر آتی ہو گی۔
سونگمی کی سالگرہ کا دن ان کے لیے سب سے مشکل دن ہوتا۔ اس دن وہ الماری سے ایک گڑیا نکال کر اس سے باتیں کرتیں اور یہ دکھاوا کرتیں کہ یہ ان کی بیٹی ہے تاکہ ان کا اپنی بیٹی سے تعلق زندہ رہے۔
سونگمی کے والدہ نے ان دنوں کے بارے میں بات کی تو وہ رو پڑیں۔ ان کی بیٹی نے ان کے بازو سہلائے۔ ’رونا بند کریں، آپ کا خوبصورت میک اپ خراب ہو رہا ہے۔‘
ایک بروکر کو 17 ہزار ڈالر ادا کرنے کے بعد انھوں نے سونگمی کے فرار کو ممکن بنایا۔ اچانک سونگمی کا برسوں کا انتظار ختم ہوا اور ڈوبتی ہوئی امیدوں کو سہارا مل گیا۔
یالو دریا پار کرنے کے بعد چین پہنچ کر سونگمی نے خود کو چھپا کر رکھا۔ ان کو ڈر تھا کہ کوئی ان کو پکڑ نہ لے۔ انھوں نے ایک بس کے ذریعے پہاڑ عبور کیے اور لاؤس پہنچ گئیں جہاں انھوں نے ایک چرچ میں پناہ لی۔
اس کے بعد وہ بھی جنوبی کوریا کے سفارتخانے پہنچیں۔ یہاں ان کو تین ماہ قیام کرنا پڑا جس کے بعد وہ جنوبی کوریا پہنچ گئیں۔
دس ماہ تک ان کو ایک ایسی جگہ قیام کرنا پڑا جہاں شمالی کوریا سے فرار ہونے والے افراد کو رکھا جاتا ہے۔ اس سفر میں ایک سال لگا لیکن سونگمی کے لیے یہ دس سال کے برابر تھا۔
آخرکار ماں اور بیٹی کا ملاپ ہوا اور اب وہ ایک ساتھ ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’جس دن مجھے جنوبی کوریا کی ری سیٹلمنٹ فسیلیٹی سے رہا کیا جانا تھا، میں بہت پریشان تھی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ اپنی ماں سے کیا کہوں گی۔ میں ان کے سامنے اچھی لگنا چاہتی تھی لیکن میرا وزن کم ہو چکا تھا اور میرے بال بھی برباد ہو چکے تھے۔‘
’میں بھی پریشان تھی۔‘ میونگ ہوئی نے اقرار کیا۔ دراصل میونگ ہوئی نے اپنی بیٹی کو پہچانا تک نہیں جس کو انھوں نے آخری بار آٹھ سال کی عمر میں دیکھا تھا۔ اب وہ 18 برس کی ہو چکی تھی۔
’وہ میرے سامنے آئی تو میں نے مان لیا کہ یہ میری بیٹی ہی ہو گی۔ میں بہت کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن لفظ منہ سے نکل نہیں پا رہے تھے۔ میں نے اسے گلے لگایا اور کہا بہت اچھا، تم اتنی مشکلات سے گزر کر یہاں پہنچی ہو۔‘
سونگمی کہتی ہیں ان کا ذہن خالی ہو گیا تھا۔ ’ہم 15 منٹ تک گلے لگ کر روتے رہے۔ یہ سب ایک خواب لگ رہا تھا۔‘
سونگمی اور ان کی والدہ نے اپنا تعلق دوبارہ سے جوڑنا شروع کیا لیکن ایک سوال سونگمی کے ذہن میں پھنس کر رہ گیا تھا۔ یہ وہ سوال تھا جو وہ آٹھ سال کی عمر سے ہی روزانہ خود سے کرتی تھیں۔
’آپ مجھے چھوڑ کر کیوں گئی تھی؟‘
بیٹی اور والدہ
میونگ ہوئی وضاحت کرتی ہیں کہ پہلی بار فرار ہونے کا خیال ان کا تھا لیکن ان کے لیے جیل سے رہا ہونے کے بعد اپنے شوہر کے گھر والوں کا سامنا کرنا مشکل تھا۔ ’میں ان کو روز یاد دلاتی کہ ان کا بیٹا مر چکا ہے اور میں زندہ ہوں۔‘
ان کے پاس پیسے بھی نہیں تھے اور اپنی بیٹی کے ساتھ اکیلے گزارا کرنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔
’میں تمھیں ساتھ لے جانا چاہتی تھی لیکن بروکر نے کہا کوئی بچہ نہیں آ سکتا۔ اور اگر ہم پکڑے جاتے تو ہم دونوں کو نقصان ہوتا۔ میں نے تمھاری دادی سے کہا کہ ایک سال تمھارا خیال رکھ لیں۔‘
سونگمی نے اپنی نظریں جھکا کر کہا ’بس ایک سال دس برسوں میں بدل گیا۔‘
ان کی ماں نے کہا: ’ہاں۔‘
’جس صبح میں روانہ ہوئی میرے پیر حرکت کرنے سے انکار کر رہے تھے لیکن تمھارے دادا نے میری ہمت بندھائی۔ میں تمھیں بتانا چاہتی ہوں کہ میں نے تمھیں اکیلے نہیں چھوڑا۔ میں تمھیں اچھی زندگی دینا چاہتی تھی۔ اور یہ ایک درست قدم لگا۔‘
شمالی کوریا سے باہر رہنے والوں کو یہ بات عجیب لگے گی۔ لیکن اس ملک کے رہائشیوں کے لیے ایسے فیصلے لینا اور خطرات مول لینا عام سی بات ہے جو دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
کم جونگ ان کی حکومت مسلسل سرحدوں پر سکیورٹی بڑھا رہی ہے اور فرار کی کوشش پر سزا کو بھی سخت کر رہی ہے۔
2020 سے پہلے شمالی کوریا سے ہر سال ایک ہزار افراد جنوبی کوریا پہنچ جاتے تھے۔ 2020 میں، جب سونگمی فرار ہوئیں، یہ تعداد 229 ہو گئی۔
ایک سال قبل کورونا کی وبا کے بعد جنوبی کوریا نے اپنی سرحد بند کر دی تھی اور عام پر بیرون ملک سفر کرنے کی ممانعت تھی۔
سرحدوں پر فوجیوں کو حکم دیا گیا تھا کہ فرار کی کوشش کرنے والوں کو گولی مار دیں۔ گذشتہ سال شمالی کوریا سے 67 افراد جنوبی کوریا پہنچے جن کی اکثریت کورونا وبا سے پہلے فرار ہوئی تھی۔
سونگی ان آخری افراد میں شامل تھیں جنھوں نے سرحد بند ہونے سے پہلے ملک چھوڑ دیا تھا۔
وہ بتاتی ہیں کہ موسم گرما میں گرمی بڑھ رہی تھی۔ 2017 میں فصلیں خشک ہو رہی تھیں اور موسم خزاں سے بہار تک کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔
لیکن کسانوں سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اپنی باقی ماندہ فصل حکومت کو دے دیں گے جیسا ہر سال کیا جاتا ہے۔ ’انھوں نے خوارک کی تلاش میں پہاڑوں کا رخ لیا۔ چند نے کاشت کاری ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
ان کے شہر میں کمائی کا دوسرا بڑا ذریعہ کانوں میں کام کرنے کا ہے۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ کان کنوں کی قسمت بھی خراب تھی۔
2017 میں شمالی کوریا کی جانب سے ایک جوہری ہتھیار کے تجربے کے بعد بین الاقوامی پابندیاں عائد ہوئیں جس کا مطلب تھا کہ اب ملک کا لوہا کوئی نہیں خرید سکتا تھا۔
کان پر کام بند ہو گیا اور کان کنوں کو تنخواہ ملنا بھی ختم ہو گئی۔ وہ کہتی ہیں کہ لوگ رات کو کان میں جا کر پرزے چرا لیتے تھے جن کو بیچا جا سکے۔
لیکن 2019 میں سب سے بڑا جرم اور خوف کسی غیر ملکی فلم یا ٹی وی پروگرام کو دیکھتے ہوئے پکڑے جانے کا تھا۔ شمالی کوریا میں ایسی بہت سے فلمیں اور پروگرام سمگل کیے جاتے ہیں جو لوگوں کو ملک سے باہر کی زندگی کی ایک جھلک دکھاتے ہیں۔
لیکن شمالی کوریا کی ریاست ان فلموں اور پروگرامز کو سب سے بڑا خطرہ گردانتی ہے۔
سونگمی کہتی ہیں کہ ’پہلے اگر آپ جنوبی کوریا کی فلم دیکھتے ہوئے پکڑے جاتے تو جرمانہ ہوتا یا دو سے تین سال کے لیے جیل بھیج دیا جاتا لیکن 2019 کے بعد اسی فلم کو دیکھنے پر سیاسی جیل بھجوا دیا جاتا۔‘
سونگمی کو ایک یو ایس بی سٹک میں انڈین فلم کے ساتھ پکڑا گیا لیکن انھوں نے سکیورٹی افسر کو قائل کر لیا کہ ان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس سٹک میں فلم تھی۔ ان کو جرمانہ کیا گیا۔
جنوبی کوریا پہچننے کے بعد، جون 2022 میں، ایک دن ان کے دوست کی ماں کا فون آیا۔
’انھوں نے بتایا کہ میرے دوست کو جنوبی کوریا کے ڈرامے سکوئڈ کی کاپی کے ساتھ پکڑا گیا ہے اور کیوںکہ وہی اس ڈرامے کو لوگوں تک پہنچا رہا تھا، اسے سزائے موت دے دی گئی۔‘
سونگمی کی باتیں شمالی کوریا سے آنے والی خبروں کی تصدیق کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ایسا لگتا ہے کہ اب حالات اور خراب ہو گئے ہیں۔ لوگوں کو جنوبی کوریا میڈیا تک رسائی کی وجہ سے گولی مار دی جاتی ہے یا کیمپ میں بھیج دیا جاتا ہے اور ان کی عمر تک نہیں دیکھی جاتی۔‘
تاہم جنوبی کوریا کی زندگی کو اپنانا بھی شمالی کوریا سے آنے والوں کے لیے آسان نہیں۔ ان کے لیے یہ ایک حیران کن تجربہ ہوتا ہے۔ لیکن سونگمی کے لیے یہ سب اتنا عجیب نہیں۔
وہ اپنے دوستوں کو یاد کرتی ہیں جن کو وہ بتا نہیں پائیں کہ وہ جا رہی تھیں۔ وہ ان کے ساتھ ناچنا یاد کرتی ہیں اور مٹی میں پتھروں سے کھیلے جانے والے کھیل بھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب آپ جنوبی کوریا میں دوستوں سے ملتے ہیں تو بس شاپنگ کرنے جاتے ہیں یا کافی پینے۔‘
جس چیز نے ان کو اس ماحول میں رہنے میں مدد دی وہ ان کا یقین تھا کہ وہ جنوبی کوریا کے لوگوں سے مختلف نہیں ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’چین اور لاؤس میں کئی ماہ سفر کرنے کے دوران مجھے ایسا لگا جیسے میں یتیم ہوں جسے کسی دوسرے ملک بھیجا جا رہا ہے۔ ‘
لیکن سیول کے ایئر پورٹ پر جس طرح حکام نے ان کا استقبال کیا، اس سے ان کی پریشانی دور ہو گئی۔ یہ وہی لفظ تھا جس کا شمالی کوریا میں بھی کسی کو ہیلو کہنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
’میں سمجھ گئی کہ ہم ایک ہی زمین پر رہنے والے لوگ ہیں اور میں کسی نئے ملک نہیں آئی، میں نے صرف جنوب تک کا سفر کیا ہے۔‘
وہ 10 منٹ تک ایئر پورٹ پر بیٹھ کر روتی رہیں۔
سونگمی اپنی زندگی کا مقصد جان چکی ہیں۔ دو کوریا کو ایک بار پھر یکجا کرنا۔ جنوبی کوریا میں سب کو یہی خواب دکھایا جاتا ہے لیکن ہر کوئی اس پر یقین نہیں رکھتا۔
وقت گزرنے کے بعد کم سے کم لوگ دونوں حصوں کے ایک بار پھر سے اتحاد کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ خصوصاً نوجوان طبقے میں یہ سوچ زیادہ ہے۔
سونگمی اب سکولوں میں جا کر بچوں کو شمالی کوریا کے بارے میں بتاتی ہیں۔ وہ پوچھتی ہیں کہ کون کون اتحاد کے بارے میں سوچتا ہے اور عام طور پر کم ہی ہاتھ کھڑے ہوتے ہیں۔
لیکن جب وہ کسی سے کوریا کا نقشہ بنانے کو کہتی ہیں تو بیشتر پورے جزیرے کا نقشہ بناتے ہیں جس میں شمالی اور جنوبی کوریا دونوں شامل ہوتے ہیں۔ یہی چیز ان کو امید دلاتی ہے۔
سونگمی اور ان کی والدہ کے تعلق میں اب زیادہ مسائل نہیں رہے۔ وہ اکثر ہنستے اور ایک دوسرے کے گلے لگتے دکھائی دیتے ہیں اور سونگمی کی والدہ جب بھی ماضی کو یاد کر کے رو پڑتی ہیں تو وہ ان کے آنسو پونچھ دیتی ہیں۔
سونگمی کہتی ہیں کہ ان کی والدہ نے درست فیصلہ کیا کیوں کہ اب وہ دونوں ہنسی خوشی جنوبی کوریا میں رہتے ہیں۔
میونگ ہوئی شاید اپنی بیٹی کو پہلے پہچاننے نہیں پائیں لیکن اب دونوں ایک جیسے ہی لگتے ہیں۔ اب ان کو اپنی بیٹی میں اپنا آپ نظر آ سکتا ہے جب وہ خود 19 سال کی تھیں۔
ان کا رشتہ سہیلیوں جیسا یا بہنوں جیسا ہے۔ لیکن جب سونگمی کی اپنی ماں سے کسی بات پر بھچ ہو تب ان کو احساس ہوتا ہے۔
وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں ’تب مجھے پتہ چلتا ہے کہ میں واقعی اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہوں۔‘
Comments are closed.