اٹلی کے قریب کشتی حادثہ: اٹلی نے فی الحال کسی پاکستانی کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی، اٹلی میں پاکستانی سفیر

  • مصنف, منزہ انوار
  • عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد

reuters

،تصویر کا ذریعہReuters

اٹلی میں پاکستانی سفیر نے تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشتی میں 20 پاکستانی سوار تھے جن میں سے 16 کو بچا لیا گیا ہے جبکہ چار لاپتہ ہیں۔

بی بی سی بات کرتے ہوئے روم میں پاکستانی سفیر علی جاوید کا کہنا تھا کہ ’فی الحال اٹلی کے اداروں نے ہمیں کسی پاکستانی کی ہلاکت کی کوئی تصدیق نہیں کی ہے اور نہ ہمارے پاس کسی پاکستانی کے ہلاک ہونے کی کوئی مصدقہ معلومات ہیں۔‘

انپوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ چار پاکستانی لاپتہ ہیں مگر ’ہمیں امید ہے کہ جلد از جلد ان کے بارے میں مصدقہ معلومات مل جائیں گی۔‘

یاد رہے اٹلی کے جنوبی علاقے میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں بچوں سمیت 100 افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق کئی دن قبل ترکی سے روانہ ہونے والی اس کشتی میں 200 کے قریب افراد سوار تھے۔ اتوار کے روز یہ کشتی اس وقت تباہ ہو گئی جب اس نے اٹلی کے جنوبی علاقے کروٹون میں لنگر انداز ہونے کی کوشش کی۔

پاکستانی سفارت نے اس حادثے میں دو درجن پاکستانیوں کی ہلاکت سے متعلق خبروں کی تردید کی ہے۔

یاد رہے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا تھا کہ ’اٹلی میں کشتی کے حادثے میں دو درجن سے زیادہ پاکستانیوں کے ڈوبنے کی خبریں انتہائی تشویشناک ہیں۔ میں نے دفتر خارجہ کو ہدایت کی ہے کہ جلد از جلد حقائق کا پتا لگایا جائے اور قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔‘

پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے ابتدائی رپورٹس کا ذکر کیا تھا۔ ’ابتدائی رپورٹس بتا رہی تھیں کہ مرنے والے پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔‘

یہ کشتی کئی دن قبل ترکی سے روانہ ہوئی تھی اور اس میں افغانستان، پاکستان، صومالیہ اور ایران کے باشندے سوار تھے۔

’کشتی میں سوار پاکستانیوں کی کل تعداد 20 تھی‘

reuters

،تصویر کا ذریعہReuters

یہ بھی پڑھیے

اس واقعے کی تفصیلات کے حوالے سے جاوید علی نے بتایا کہ یہ حادثہ جہاں پیش آیا وہ روم میں پاکستانی سفارت خانے سے نو گھنٹے کی مسافت پر ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’کل ہمارے پاس مختلف ذرائع سے غیرمصدقہ اطلاعات آ رہی تھیں جنھیں رد نہ کرتے ہوئے اور موقعے کی نزاکت کا جائزہ لیتے ہوئے ہم نے فرسٹ سیکرٹری فرحان علی کو کیلابریا روانہ کیا، وہ رات کو بہت دیر سے وہاں پہنچے اور صبح اٹلی کی پولیس سمیت مختلف اداروں کے ساتھ ملاقات کی۔‘

جاوید علی کے مطابق یہاں روم میں ’ہمارے اٹلی کے سکیورٹی اداروں کے ساتھ جو اچھے تعلقات ہیں، انھیں بروئے کار لاتے ہوئے ہم نے اپنے آفیسر کی کونسل رسائی کو یقینی بنایا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا افسر پہلا سفارتی اہلکار تھا جو موقعے پر پہنچا اور رسائی ملنے کے بعد ان 16 پاکستانیوں سے ملاقات کی جنھیں سمندر سے باحفاظت نکال لیا گیا تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ یہ سب 16 پاکستانی باخیریت ہیں اور ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

جاوید علی کے مطابق ان 16 بچ جانے والے پاکستانیوں کے بقول ’کشتی میں سوار پاکستانیوں کی کل تعداد 20 تھی‘۔ لہذا چار پاکستانی ایسے ہیں جو ابھی تک لاپتہ ہیں یا ڈوب گئے ہیں تاہم ان کی تلاش جاری ہے۔

ان سوال کے جواب میں کہ ان افراد کا تعلق کہاں سے تھا، پاکستانی سفیر جاوید علی نے بتایا کہ ان افراد کا تعلق پاکستان کے مختلف علاقوں سے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ مالاکنڈ کے تھے، چند کا تعلق حافظ آباد گجرات سے تھا۔

reuters

،تصویر کا ذریعہReuters

جاوید علی نے بتایا کہ پاکستانی سفارت خانے نے اپنے جس اہلکار کو وہاں تعینات کیا ہے انھیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ وہیں رہیں اور اگر اٹلی کے حکام کل کچھ لوگوں کو سمندر سے نکالنے میں کامیاب رہتے ہیں یا لاپتہ افراد مل جاتے ہیں تو ان کی شخصاً شناخت کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاکستانی ہونے کی تصدیق ہونے کی صورت میں آگے کا لائحہ عمل طے کر کے اس حساب سے اقدامات کریں گے۔ انھوں نے بتایا کہ ہمیں یہ ہدایات وزیراعظم پاکستان کے دفتر اور سیکرٹری خارجہ سے موصول ہوئی ہیں۔

جاوید علی کا کہنا تھا کہ ’فی الحال اٹلی کے اداروں نے ہمیں کسی پاکستانی کی ہلاکت کی کوئی تصدیق نہیں کی ہے اور نہ ہمارے پاس کسی پاکستانی کی ہلاکت کی کوئی مصدقہ معلومات ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ خدشہ ہے کہ چار پاکستانی لاپتہ ہیں مگر ہمیں امید ہے کہ جلد از جلد ان کے بارے میں مصدقہ معلومات مل جائیں گی۔

جاوید علی نے بتایا کہ جب سے یہ واقعہ پیش آیا ہے پاکساتنی سفارت خانہ، اٹلی کے اداروں اور کمیونٹی کے ساتھ مل کر اس واقعے کی تحقیقات اور اس میں پیش آنے والے مسائل کے حوالے سے اقدامات کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ان لوگوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں جو اس حادثے سے بچ کر باحفاظت ساحلِ سمندر تک پہنچے ہیں۔

اور جو لاپتہ ہیں ’ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے سٹیٹس کے حوالے سے ہمیں جلد از جلد کوئی مصدقہ معلومات مل سکیں۔‘

epa

،تصویر کا ذریعہEPA

epa

،تصویر کا ذریعہEPA

BBCUrdu.com بشکریہ