جمعرات 8؍ شوال المکرم 1442ھ20؍مئی 2021ء

اٹلی کے ایک غار سے قدیم دور کے انسانوں ’نینڈیرتھل‘ کی باقیات برآمد

اٹلی کے ایک غار سے قدیم دور کے انسانوں ’نینڈیرتھل‘ کی باقیات برآمد

This image released by the Italian Culture Ministry shows a cave near Rome where Neanderthal bones were discovered

،تصویر کا ذریعہItalian culture ministry/AFP/Getty

،تصویر کا کیپشن

نینڈرتھل کی ہڈیاں روم کے جنوب مشرقی حصے میں ایک غار سے برآمد

اٹلی میں ماہرین آثار قدیمہ نے قدیم زمانے کے نو انسانوں کی باقیات تلاش کی ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ گوشت خور جانور نے ان کا انفرادی طور پر شکار کر کے انھیں اس غار لے آئے اور پھر ان کی باقیات یہیں پر چھوڑ دیں۔

ان قدیم دور کے انسان کو نینڈرتھل پکارا جاتا ہے جن کی باقیات روم کے جنوب مشرقی علاقے کی ایک قبل از تاریخ غار سے ملے ہیں۔

اٹلی کے ساحلی قصبے سان فیلس سیرسیو کے گوٹاری غار میں صدیوں پرانی دبی ہوئی ہڈیاں، جن میں کھوپڑی کے ٹکڑے اور ٹوٹے ہوئے جبڑے شامل ہیں، ملی ہیں۔ نینڈرتھل کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ قدیم دور کے وہ انسان تھے جن کی نسل 40،000 سال قبل ختم ہو گئی یعنی۔

تاہم ان کے ڈی این اے کے شواہد آج کے انسان میں بھی موجود ہیں۔

اٹلی کی وزارت ثقافت کا کہنا ہے کہ قدیم دور کے انسانوں میں سے آٹھ کی باقیات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ 50،000 سے لے کر 68،000 سال قبل دور کے انسان تھے جبکہ ان میں سے ایک کا دور 90 ہزار سے لے کر ایک لاکھ سال قبل کا بنتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ان نو انسانوں میں کون کون شامل ہے؟’

جن ماہرین آثار قدیمہ (آرکیالوجسٹس) نے ان قدیم دور کے انسانوں کی باقیات گوٹاری غار سے دریافت کی ہیں ان کے مطابق ان نو نینڈیرتھل میں سے سات بالغ مرد تھے، ایک خاتون اور ایک نوجوان لڑکا شامل ہیں۔ یہ غار روم کے جنوب مشرق میں 90 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔

تور ویرگاتا یونیورسٹی میں آرکائیالوجی کی پروفیسر ماریہ رولفو کا کہنا ہے کہ ان نینڈیرتھل میں سے اکثر گوشت خور جانوروں کا شکار بنے جو انھیں گھسیٹ کر اپنے غار میں لے آئے۔

گارڈین اخبار کے مطابق انھوں نے کہا ہے کہ نینڈرتھل ان جانوروں کا شکار بن گئے تھے۔ ان گوشت خور جانوروں (Hyenas) نے علیحدہ علیحدہ پہلے سے ہی خطرات سے دوچار ایسے انسانوں کا شکار کیا جو اس وقت بیمار تھے یا وہ معمر تھے۔

نینڈیرتھل کی کھوپڑی

،تصویر کا ذریعہDE AGOSTINI PICTURE LIBRARY

،تصویر کا کیپشن

قدیم دور کے انسانوں نینڈیرتھل کی کھوپڑی

اٹلی کے وزیر ثقافت ڈاریو فرانسسچینی نے اس دریافت کو انتہائی غیر معمولی دریافت قرار دیتے ہوئے کہا اب پوری دنیا اس دریافت پر بات کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ دریافت اب نینڈیرتھل پر تحقیقات کرنے میں مدد فراہم کرے گی۔

اتفاقیہ طور پر گوٹاری غار میں سنہ 1939 میں بھی کچھ باقیات ملی تھیں جو اس غار کو نینڈیرتھل انسانوں کی تاریخ میں بہت اہم جگہ بنا دیتی ہے۔ یہ غار قدیم دور میں زلزلے یا لینڈ سلائیڈ یعنی تودا گرنے سے ڈھک گئی تھی جس کی وجہ سے اس کے اندر باقیات اور آثار محفوظ رہ گئے۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق جب 1939 میں اس غار سے کچھ باقیات ملی تھیں تو اس وقت یہ خیال کیا گیا کہ یہ قدیم دور کے انسان دراصل انسان خور تھے اور یہ انسانوں کا مغز نکال کر کھا جاتے تھے تاہم نئی دریافت سے یہ پتا چلتا ہے کہ حقیقت میں تو یہ خود مظلوم تھے جو جنگلی جانوروں کا شکار بن گئے تھے۔

خیال رہے کہ اس غار سے پتھر کے زمانے کے گوشت خور جانور (ہیناز)، ہاتھیوں اور رائنو سورسز سمیت متعدد اور جانوروں کی ہڈیاں بھی ملی ہیں۔

قدیم دور کے انسان

،تصویر کا ذریعہWerner Forman/Getty Images

،تصویر کا کیپشن

ماہرین کے مطابق انسانی کھوپڑی ایک ایسی آرکائیو ہے کہ جو ہمیں ان انسانوں کی عمر، جنس اور لمبائی کے علاوہ یہ بھی بتاتی ہے کہ یہ انسان کیا کھاتے تھے، ان کے جینوم کیا تھے، کیا انھیں کوئی بیماری تھی، وہ کتنا پیدل چلتے تھے اور کیا وہ شغل میلہ بھی لگاتے تھے جیسی معلومات میسر آتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ نئی دریافت اب اس بات کا پتا چلانے میں بھی مددگار ثابت ہو گی کہ قدیم دور کے یہ انسان کیا کھانا پسند کرتے تھے اور ان کے بارے میں اور کیا ایسے حقائق ہیں جو ابھی تک معلوم نہیں ہیں۔

اٹلی کی وزارت ثقافت میں چیف آرکیالوجسٹ ماؤرو روبینی نے نیویارک ٹائمز کو بتایا ہے کہ اس غار کی تاریخ 1939 میں ختم نہیں ہو جاتی، ابھی اور بھی اس غار سے حقائق باہر آنے ہیں۔

ان کے مطابق انسانی کھوپڑی ایک ایسی آرکائیو ہے کہ جو ہمیں ان انسانوں کی عمر، جنس اور لمبائی کے علاوہ یہ بھی بتاتی ہے کہ یہ انسان کیا کھاتے تھے، ان کے جینوم کیا تھے، کیا انھیں کوئی بیماری تھی، وہ کتنا پیدل چلتے تھے اور کیا وہ شغل میلہ بھی لگاتے تھے جیسی معلومات میسر آتی ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.