- مصنف, صوفیہ بیٹیزا
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- ایک گھنٹہ قبل
’مسلمانوں کو یہ بتانا کہ وہ اجتماعی طور پر عبادت نہیں کر سکتے ایک نفرت آمیز عمل ہے اور وہ ہمارا مذہب ہم سے چھیننا چاہتی ہیں۔‘20 سالہ کرن (فرضی نام) 10 برس قبل اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان سے اٹلی منتقل ہوئی تھیں اور وہ اطالوی قصبے مونفالکون کی رہائشی ہیں جہاں کی میئر نے اپنے علاقے کے دو بڑے اسلامِک سینٹرز میں اجتماعی نمازوں کی ادائیگی اور کرکٹ کھیلنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ایک ڈینسٹسٹ کے ساتھ بطور اسسٹنٹ کام کرنے والی کرن ان پابندیوں کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہتی ہیں کہ ’یہ ایک ذاتی حملہ محسوس ہوتا ہے۔ یہاں مسلمانوں کے لیے اور بنگلہ دیشیوں کے خلاف بہت نفرت پائی جاتی ہے۔‘مونفالکون میں رہنے والے تارکینِ وطن میں سے بڑی تعداد کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایشیائی مُمالک سے آنے والے تارکینِ وطن میں سے اکثریت کا تعلق مزدور طبقے سے ہیں، جن کی خواتین کو اٹلی کی مقامی زبان بولنی نہیں آتی۔
کرن مسلمانوں اور بنگلہ دیشی شہریوں کے خلاف نفرت آمیز رویے کا ذمہ دار مونفالکون کی میئر انا ماریہ سیسنٹ کو قرار دیتی ہیں۔ میئر کا دعویٰ ہے کہ وہاں مقیم مسلمان مرد اپنی خواتین پر ظلم کرتے ہیں۔’وہ خواتین کو تحفظ نہیں دینا چاہتیں بلکہ انھیں بس جواز بنانا چاہتی ہیں۔ خواتین کی مدد کے لیے مساجد کو بند کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا، خواتین بھی تو مسجد جاتی ہیں۔‘انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والی میئر انا ماریہ سیسنٹ اپنے امیگریشن مخالف جذبات کی بنیاد پر اقتدار میں آئیں تھیں۔ مئیر اپنے جذبات کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کرتی ہیں: ’یہاں اسلامی بنیاد پرستی پائی جاتی ہے۔ ایک ایسی ثقافت جہاں خواتین کے ساتھ بہت برا برتاؤ کیا جاتا ہے اور مرد اُن پر ظلم کرتے ہیں۔‘تاہم کرن سمجھتی ہیں کہ مسلمانوں کے مراکز کو بند کرنے، تارکینِ وطن پر پابندیاں لگانے اور اُن سے متعلق سخت بیانات دینے سے تو بہتر یہ ہو گا کہ مئیر انا ماریہ سیسنٹ خواتین کی تعلیم اور تربیت پر توجہ دیں اور انھیں قومی دھارے میں لانے کے لیے کام کریں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
کرکٹ پر پابندی اور بنگالی نوجوانوں سے بُرا سلوک
اطالوی قصبے مونفالکون کے حالات بھی دُنیا کے چند دیگر مُمالک کے ہی جیسے ہیں، جہاں تارکینِ وطن کو بُری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔تارکینِ وطن کو درپیش پریشانیوں کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اگر وہاں کوئی کرکٹ کھیلتا ہوا نظر آجائے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے نوجوان کہتے ہیں کہ اگر کوئی کرکٹ کھیلنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اس پر 100 یورو تک کا جُرمانہ ہوسکتا ہے۔اپنی کرکٹ ٹیم کے کپتان میاہ بپّی کہتے ہیں کہ ’اگر ہم مونفالکون میں کھیل رہے ہیں تو پولیس وہیں ہمیں روکنے کے لیے پہنچ جاتی ہے۔‘وہ بنگالی نوجوانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ لوگ اپنا قومی کھیل کھیلتے ہوئے ایک مقامی پارک میں ’پکڑے‘ گئے تھے۔میاہ کہتے ہیں کہ ’وہ (مقامی لوگ) کہتے ہیں کہ کرکٹ کا اٹلی سے کوئی تعلق نہیں لیکن میں آپ کو سچ بتاؤں گا یہ اس لیے ہو رہا کہ کیونکہ ہم غیر ملکی ہیں‘اس قصبے میں تقریباً ایک تہائی افراد غیر ملکی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے اور یہ وہ مُسلمان ہیں جنھوں نے 1990 کی دہائی کے اواخر میں یہاں آنا اور آباد ہونا شروع کیا تھا۔
میئر انا ماریہ سیسنٹ کے مطابق ان تمام عوامل کے سبب مونفالکون کی ثقافت خطرے میں ہے۔مئیر کا کہنا ہے کہ ’ہماری تاریخ کو مٹایا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس کی کوئی حیثیت نہیں، سب کچھ بد سے بدتر ہو رہا ہے۔‘مونفالکون میں مغربی لباس میں ملبوس اطالوی باشندے شلوار قمیض میں ملبوس بنگلہ دیشیوں کے ساتھ گھلتے ملتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہاں بنگلہ دیشی ریستوران اور حلال اشیا کی دُکانیں بھی ہیں۔بطور میئر انا ماریہ نے اپنے دو ادوار میں قصبے کے مرکزی علاقے سے وہ بینچ ہٹوا دیے جہاں بنگلہ دیشی تارکینِ وطن بیٹھا کرتے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ انھوں نے ساحل سمندر پر جانے والی مسلمان خواتین کے ملبوسات کے خلاف بھی مہم چلائی تھی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
’شہر چھوڑ کر کہیں اور چلی جاؤں گی‘
پورے اٹلی میں صرف آٹھ مساجد ہیں حالانکہ وہاں تقریبا 20 لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ اس کے مقابلے میں فرانس میں دو ہزار سے زائد مساجد ہیں۔مونفالکون میں بنگلہ دیشی اور پاکستانی باشندوں کا کہنا ہے کہ میئر کے فیصلے کا مسلم کمیونٹی پر بہت بُرا اثر پڑا ہے۔19 سالہ مہیلی کا کہنا ہے کہ ’میئر کو لگتا ہے کہ بنگالی اٹلی کو اسلامائز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہم صرف اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔‘مہیلی بنیادی طور پر ڈھاکہ کی رہنے والی ہیں لیکن اٹلی میں پلی بڑھی، مغربی لباس پہنتی ہیں اور اب تو روانی سے اطالوی زبان بولتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ انھیں صرف اپنے بنگالی ورثے کی وجہ سے راہ چلتے ہوئے گالیاں دی گئیں اور ہراساں کیا گیا۔اُن کا کہنا ہے کہ ’میں جتنی جلدی مُمکن ہوا یہ شہر چھوڑ کر کہیں اور چلی جاؤں گی۔‘پاکستان سے اٹلی منتقل ہونے والی کرن بھی کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’یہاں کے بہت سے اطالوی باشندے محسوس کرتے ہیں کہ ان کے علاقے پر ہم نے قبضہ کر لیا لیکن یہ سچ نہیں۔ ہم یہاں باقاعدہ اپنے مکمل کاغذات کے ساتھ قانونی طریقے سے رہ رہے ہیں اور ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔‘دوسری جانب بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے میاہ بپی کو توقع ہے کہ انھیں اس سال اپنا اطالوی پاسپورٹ مل ہی جائے گا مگر جو بات وہ ابھی نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ وہ اس شہر میں رہیں گے یا اسے حالات کی وجہ سے چھوڑ جائیں گے۔شپ یارڈ کے کارکن میاہ بپی کہتے ہیں کہ ’ہم تو کسی کے لیے کبھی بھی کوئی پریشانی پیدا نہیں کرتے۔ ہم ٹیکس دیتے ہیں لیکن وہ نہیں چاہتے کہ ہم یہاں اُن کے ساتھ رہیں۔‘اسی شہر کی ایک عدالت نے ٹاؤن کونسل اور میئر کے اجتماعی نماز پر پابندی کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔تاہم کرن کا کہنا ہے کہ ’جب تک اس شہر میں میئر انا ماریہ موجود ہیں، اُن کے اسلام مخالف نظریات کی وجہ سے اس شہر میں امن اور پیار محبت یا بھائی چارہ نہیں ہو گا، مختلف قومیتوں اور مذاہب کے لوگ ایک ساتھ نہیں بیٹھ سکیں گے۔‘کرن بھی بہت جلد اس شہر سے دور چلی جانا چاہتی ہیں اُن کا کہنا ہے کہ ’اب اس شہر میں رہنا کسی اذیت سے کم نہیں اور یہ صرف میں ہی نہیں بلکہ میرے بہت سے دیگر دوستوں کا بھی یہی خیال ہے۔‘تاہم مونفالکون کی میئر نے اٹلی سے باہر یورپ کی اسلامائزیشن کے خلاف اپنی مہم جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اب وہ یورپی پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہو چکی ہیں اور جلد ہی انھیں اپنا اسلام مخالف پیغام برسلز تک لے جانے کا موقع ملے گا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.