ایک سال سے زیادہ عرصے تک انھیں ادارے کے باہر روحانی اجتماعات میں حصہ لینے پر مجبور کیا گیا اور بعض اوقات یہ اجتماعات کئی دنوں پر مشتمل ہوتے تھے۔ ان اجتماعات کے دوران روزاریو کو ایسی پریشان کن سرگرمیوں سے گزرنا پڑا جن کا مقصد ان کے جنسی رجحانات کو ختم کرنا تھا۔ان مشقوں کے دوران انھیں الماری میں بند کیا گیا، دیگر ساتھیوں کے سامنے انھیں برہنہ کیا گیا اور زندہ ہوتے ہوئے بھی انھیں اپنی آخری رسومات خود ادا کرنے پر مجبور کیا گیا۔ان رسومات کے دوران انھیں اپنی خامیاں ایک کاغذ پر لکھنے کو کہا گیا جس میں ’ہم جنس پرستی‘، ’مکروہ اعمال‘، ’جھوٹ‘ شامل تھے۔ اس کے علاوہ انھیں ایک علامتی قطبے کے نیچے دفن ہونے پر بھی مجبور کیا گیا۔،تصویر کا ذریعہRosario Lonegro
’میں نے سوچا کہ مجھےعلاج کی ضرورت ہے‘
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے 1990 میں ہم جنس پرستی کو دماغی امراض کی فہرست سے خارج کر دیا تھا۔ بعد میں ہونے والی سائنسی تحقیق نے بڑی حد تک یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جنسی رجحان کو تبدیل کرنے کی کوششیں نہ صرف غیر مؤثر ہیں بلکہ نقصان دہ بھی ہیں۔فرانس، جرمنی اور خاص طور پر کیتھولک سپین میں جنسی رجحان تبدیل کرنے کے علاج پر باضابطہ طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور انگلینڈ اور ویلز دونوں میں اس طرح کے طریقوں کو غیر قانونی قرار دینے کی کوششیں جاری ہیں۔تاہم آج بھی اٹلی میں جنسی رجحانات ختم کرنے کے لیے جو طریقے اپنائے جا رہے ہیں ان کا تعین کرنا ممکن ہے۔ ایسے معاملات زیادہ تر مردوں کی جانب سے رپورٹ کیے جاتے ہیں، تاہم ان معاملات سے متاثر ہونے والوں میں خواتین بھی موجود ہیں۔حالیہ مہینوں میں بی بی سی نے ملک بھر میں متعدد نوجوان ہم جنس پرست مردوں کے انٹرویو کیے ہیں جن میں انھوں نے جعلی سائنسی گروپ میٹنگز اور انفرادی تھراپی کے تجربات شیئر کیے ہیں جن کا مقصد ان کا جنسی رجحان تبدیل کرنا تھا۔ایک 33 سالہ شخص دو سال تک ایسی ہی میٹنگز میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ ان میٹنگز کا احوال بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’میں خود کو سمجھانا چاہتا تھا کہ میں ہم جنس پرست نہیں بننا چاہتا۔ میں نے سوچا کہ مجھے علاج کی ضرورت ہے۔‘ایک اور شخص نے کہا کہ ’میں نے اسے قبولیت کے واحد راستے کے طور پر دیکھا۔ میں پادری نہیں بننا چاہتا تھا بلکہ صرف اپنی روزمرہ زندگی میں قبولیت حاصل کرنا چاہتا تھا۔‘ہم جنس پرستوں کی جنسی رجحان میں تبدیلی کی تھراپی اٹلی کے ایک مخصوص علاقے تک محدود نہیں ہے۔ ملک بھر میں گروپ میٹنگز اور انفرادی تھراپی سیشن منعقد کیے جاتے ہیں، ان میں سے کچھ کا انعقاد لائسنس یافتہ نفسیاتی ماہرین بھی کرواتے ہیں۔کچھ مثالیں ایسی بھی ملتی ہیں جہاں تھراپی سیشنز کا انعقاد غیرسرکاری اور خفیہ طور پر کیا جاتا ہے، ان سیشینز کو اکثر خفیہ طریقوں سے ہی فروغ دیا جاتا ہے۔دیگر کورسز کی عوامی طور پر تشہیر کی جاتی ہے۔ اٹلی کے قدامت پسند حلقوں میں معروف شخصیات آن لائن اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پرفالوورز تلاش کرتی ہیں تاکہ ان کے جنسی رجحانات کو تبدیل کیا جاسکے۔سسلی میں روزاریو کو بنیادی طور پر میگوئل اینگل سانشیز کورڈون کی قیادت میں ہسپانوی گروپ ’ٹرتھ اینڈ فریڈم‘ کی طرف سے منعقد ہونے والے اجلاسوں میں شرکت پر مجبور کیا گیا۔ کیتھولک چرچ کی ناپسندیدگی کی بنا پر بعد میں یہ گروپ تحلیل کر دیا گیا تھا۔تاہم اطالوی پادری جس نے اصل میں روزاریو کو اس روش پر ڈالا تھا، انھیں چرچ کے اندر ایک سینئر عہدہ دے دیا گیا تھا۔ دوسری جانب دوسرے لوگوں نے سانشیز کورڈن کے طریقوں سے ترغیب حاصل کرنی کا سلسلہ جاری رکھا۔بی بی سی نے جن لوگوں سے بات کی ان کا کہنا تھا کہ انھیں لوکا ڈی ٹولوے نامی ’اخلاقی و روحانی تربیت کار‘ کے پاس بھیجا گیا تھا۔ لوکا ڈی ٹولوے نے ایک کتاب بھی لکھی تھی جس کا نام: ’میں کبھی ہم جنس پرست تھا، میں نے میڈجوگوری میں خود کو پایا‘ تھا۔اپنی ویب سائٹ پر لوکا ڈی ٹولوے اور ان کی اہلیہ فخر سے کہتے ہیں کہ وہ ایک ’مطمئن جوڑا‘ ہیں جو ’کسی بھی ایسے شخص کی مدد کرنا چاہتے ہیں جس کی جنسی شناخت متاثر ہو۔‘بی بی سی کے رابطہ کرنے پر لوکا ڈی ٹولوے نے کوئی جواب نہیں دیا۔ایک اور شخص جو جنسی رجحان سے نمٹنے کے طریقے سکھاتے ہیں وہ اٹلی کے انتہائی قدامت پسند حلقوں میں ایک مشہور مصنف جارجیو پونٹے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ ہم جنس پرستی پر قابو پانے اور اس سے آزاد ہونے میں لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور اپنی کہانی لوگوں کو سنانا چاہتے ہیں کہ وہ بھی ہم جنس پرستی کی طرف مائل تھے لیکن اب ’آزادی کی طرف ایک لمبا راستہ‘ طے کر رہے ہیں۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’میرا ماننا ہے کہ ایک ہم جنس پرست کو یہ آزادی ہونی چاہیے کہ اگر وہ چاہے تو اپنا جنسی رجحان بدل لے، لیکن شاید یہ ہر کسی کے لیے ممکن نہیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
’میں نے اسے بوسہ دیا لیکن مجھے یہ ایک غیر فطری عمل محسوس ہوا‘
حالیہ برسوں میں درجنوں نوجوان مرد و خواتین نے ڈی ٹولوے، پونٹے اور سانشیز کورڈن جیسے لوگوں سے رہنمائی حاصل کی ہے۔ ان میں سے ایک 36 سالہ میسیمیلیانو فیلیسیٹی بھی ہیں، جو ایک ہم جنس پرست شخص ہیں جو 15 سال سے زیادہ عرصے تک اپنے جنسی رجحان کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔’میں نے بہت چھوٹی عمر سے ہی اپنے آپ سے بے چینی محسوس کرنا شروع کردی تھی، مجھے لگا کہ مجھے میرے خاندان، معاشرے، چرچ کے حلقوں میں کبھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ میں نے سوچا کہ میں غلط ہوں، میں صرف پیار کرنا چاہتا تھا، اور ان لوگوں نے مجھے امید دی۔‘فیلیسیٹی نے کہا کہ انھوں نے مختلف حل آزمائے ہیں، ماہرین نفسیات اور پادریوں سے مشورہ کیا ہے جنھوں نے انھیں ہم جنس پرستی سے ہٹنے میں مدد کرنے کی پیش کش کی تھی۔تاہم تقریبا دو سال پہلے انھوں نے رُکنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی اس مشکل سے آگاہ ایک شخص نے انھیں ایک عورت کے ساتھ ڈیٹنگ شروع کرنے کا مشورہ دیا لیکن انھیں یہ ایک فطری عمل محسوس نہیں ہوا۔’جب میں نے اسے پہلی بار بوسہ دیا، تو یہ غیر فطری عمل محسوس ہوا۔‘فیلیسیٹی نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دکھاوا کرنا بند کر دیا جائے۔ صرف چند ماہ پہلے ہی انھوں نے اپنے خاندان کو بتا دیا کہ وہ ہم جنس پرست ہیں۔’اس میں کئی سال لگے، لیکن پہلی بار میں وہ ہونے پر خوش ہوں جو میں ہوں۔‘پچھلی حکومتوں کی جانب سےجنسی رجحان کی تبدیلی کے علاج کے خلاف ایک بل لانے کی کوششوں کے باوجود اٹلی میں اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔اٹلی کی دائیں بازو کی حکومت، جس کی سربراہی جارجیا میلونی کر رہی ہیں، اب تک ایل جی بی ٹی حقوق کے حوالے سے جارحانہ موقف اپنائے ہوئی ہے اور وزیر اعظم نے خود ’ایل جی بی ٹی لابی‘ اور ’صنفی نظریے‘ سے نمٹنے کا عہد کیا ہوا ہے۔یونیورسٹی آف پاڈووا سے منسلک محقق مائیکل ڈی باری کہتے ہیں کہ اس طرح کی پیش رفت میں کمی کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ مغربی یورپ کے دیگر ممالک کے مقابلے میں اٹلی تبدیلی کو نافذ کرنے میں سستی روی کا شکار ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک بہت ہی مشکوک رجحان ہے کیونکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس پر اٹلی کے ماہرین نفسیات نے پابندی عائد کر رکھی ہے۔ پھر بھی اطالوی قانونی نظام میں اسے غیر قانونی نہیں سمجھا جاتا۔ اس طرح کے کام کرنے والوں کو سزا نہیں دی جا سکتی۔‘معاملے کی پیچیدگی کے باوجود ماہرین کا خیال ہے کہ جزوی طور پر اٹلی میں مضبوط کیتھولک اثر و رسوخ کی وجہ سے ملک ان متنازع طریقوں کو روکنے میں زیادہ ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔روم کی لوئس یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ماہر سماجیات ویلنٹینا جینٹل کا کہنا ہے کہ ’یہ ان عناصر میں سے ایک ہو سکتا ہے جو پدرشاہی کی ثقافت کے ساتھ ہم جنس پرستی اور ایل جی بی ٹی حقوق کی وسیع تر تفہیم کو مزید مشکل بنا دیتے ہیں۔ ‘،تصویر کا ذریعہGetty Images’تاہم یہ کہنا بھی مناسب ہوگا کہ تمام کیتھولک مذہب تنوع کو شامل کرنے کے مخالف نہیں ہیں اور چرچ خود اس سلسلے میں مضبوط تبدیلی کے دور میں ہے۔‘پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ کیتھولک چرچ ہم جنس پرست برادری سمیت ہر ایک کے لیے کھلا ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ روحانیت کے ذاتی راستے پر ان کا ساتھ دے، لیکن قواعد کے دائرے میں رہتے ہوئے۔تاہم بتایا گیا کہ خود پوپ نے ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے خلاف انتہائی توہین آمیز لفظ استعمال کیے تھے جب انھوں نے اطالوی بشپس کے ساتھ بند کمرے میں ہونے والی ملاقات میں کہا تھا کہ ہم جنس پرستوں کو پادری بننے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ویٹیکن نے اس پر باضابطہ طور پر معافی بھی مانگی تھی۔روزاریو نے سسلی کو چھوڑ دیا ہے اور اب وہ میلان میں رہتے ہیں۔ سنہ 2018 میں نروس بریک ڈاؤن کے بعد انھوں نے روحانی مرکز اور کنورژن تھراپی گروپ دونوں کو چھوڑ دیا تھا۔ وہ اب بھی خدا پر یقین رکھتے ہیں لیکن اب وہ پادری نہیں بننا چاہتے۔وہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ایک اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں اور فلسفے کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔تاہم ان کے نفسیاتی زخم اب بھی گہرے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ان میٹنگز کے دوران ایک ورد مجھے پریشان کرتا تھا اور بار بار دہرایا جاتا تھا ’خدا نے مجھے ایسا نہیں بنایا۔ خدا نے مجھے ہم جنس پرست نہیں بنایا۔ یہ صرف ایک جھوٹ ہے جو میں اپنے آپ سے کہتا ہوں، میں نے سوچا کہ میں برا ہوں‘۔انھوں نے کہا ’میں اسے کبھی نہیں بھولوں گا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.