سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے دورانِ سماعت وکلاء کو ہدایت کی کہ اگلے ہفتے سے بینچ کی دستیابی مشکل ہو گی، کوشش کریں کہ آج اپنے دلائل مکمل کر لیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کرنا مشکل ہو گا، کوشش کروں گا کہ کل ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں، 1973ء کے آئین میں آرٹیکل 96 پارٹی انحراف سے روکتا تھا، اس آئین میں منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں کیا جا سکتا تھا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ووٹ نیوٹرل ہونے کے باعث آئین میں نااہلی کی سزا نہیں تھی۔
فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ فوجی آمر نے آئین میں آرٹیکل62، 63 کو شامل کیا۔
جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ کیا پالیسی معاملات میں اختلاف پر بھی انحراف کی سزا ہوتی ہے؟
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پالیسی معاملات میں انحراف کیا جا سکتا ہے، اسپیکر کے انتخاب میں بھی پارٹی پالیسی پر عمل کرنا ضروری نہیں۔
جسٹس مظہر عالم نے ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ ایک امریکی جج سے پوچھا گیا کہ عدالتی فیصلوں پرعمل نہ ہو تو آپ کے پاس توہینِ عدالت کا اختیار ہے؟ امریکی جج نے بتایا کہ امریکا میں سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل نہ کرنے کا تصور ہی نہیں، امریکا میں سپریم کورٹ حتمی ثالث ہے، امریکا میں سپریم کورٹ کے فیصلوں پر اتنا اعتبار ہے کہ من و عن عمل کیا جاتا ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمارے جو حالات ہیں ان میں ملک انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے، کوئی آئین و قانون کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ سب کو ایک ہی زاویے میں دیکھنا درست نہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کلچر بن گیا ہے کہ فیصلہ آپ کے حق میں ہو تو انصاف کا بول بالا، خلاف ہو تو انصاف داغ دار ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ ہم نے ہمیشہ سپریم کورٹ کے فیصلے تسلیم کیے، جب گیلانی صاحب کو فارغ کیا گیا تو ہم نے فیصلے کو تسلیم کیا تھا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 63 اے کے صدارتی ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed.