چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا ہے کہ آرٹیکل 62 ایف ون مسائل کھڑے کرتا ہے۔
بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس سے خطاب میں جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اس تقریب کا عنوان ’The good, bad and the ugly‘ ہونا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا ماضی آئین کو معطل کرکے نظریہ ضرورت پر اکتفا کرنے کا رہا ہے، تاریخ عدلیہ سے سوال ضرور کرے گی کہ آئین توڑنے والوں کو تحفظ کیوں دیا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے مزید کہا کہ ہمارے تفریق زدہ سیاسی معاشرے میں عدالتوں کا کردار بہت اہم ہے، عدالت کو حاصل اختیار پبلک کی خدمت کا ہے نا کہ ذاتی مفاد کے حصول کے لیے ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ عدلیہ جانبدار نہیں ہو سکتی، ججز کی آئین کے سوا کسی سے وفاداری نہیں ہو سکتی، لوگ عدالتی وقار پر تنقید کرتے ہیں اور ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے یہ بھی کہا کہ اسی عدلیہ نے ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی لگانے کا حکم دیا، اس پھانسی کے فیصلے کو عدالتی نظائر میں شامل نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے سامنے آرٹیکل 62 ون ایف جیسا قانون بھی موجود ہے، جو مسائل کھڑے کرتا ہے۔
Comments are closed.