اُردن میں فوجی اڈے پر ڈرون حملے میں تین امریکی فوجی ہلاک، 34 زخمی: کیا صدر بائیڈن پر ایران کے حوالے سے دباؤ بڑھ رہا ہے؟
امریکی فوج کے مطابق اس سے قبل بھی خطے میں امریکی اڈوں پر حملے ہوئے ہیں لیکن ان میں کسی امریکی اہلکار کی ہلاکت نہیں ہوئی تھی۔ امریکی صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ ’امریکہ تمام ذمہ داروں کو اپنی مرضی کے وقت اور طریقے کے مطابق کیفر کردار تک پہنچائے گا۔‘اس حملے کے بعد ایران نے امریکہ اور برطانیہ کے اس الزام کی تردید کی ہے کہ وہ اس حملے میں ملوث گروہوں کی حمایت کرتا ہے۔ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے کہا ہے کہ ’یہ دعوے ایک خاص سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ خطے کی حقیقت کو تبدیل کیا جا سکے۔‘وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن کو اتوار کی صبح امریکی سیکریٹری دفاع لائڈ آسٹن اور دیگر اعلی عہدیداروں نے اس ڈرون حملے کے متعلق بریفنگ دی ہے۔ صدر بائیڈن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’میں اس مکمل طور پر غیر منصفانہ حملے میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کے خاندانوں اور دوستوں کے غم میں برابر شریک ہوں۔‘ہلاک اور زخمی ہونے والے فوجیوں کے نام ابھی تک جاری نہیں کیے گئے ہیں کیونکہ اہلکار ان کے اہلخانہ کو مطلع کرنے کا کام کر رہے ہیں۔جنوبی کیرولینا کے دورے پر صدر بائیڈن نے کہا کہ ’گذشتہ رات مشرق وسطیٰ میں ہمیں ایک مشکل دن کا سامنا رہا ہے جس میں ہم نے اپنے تین بہادروں جوانوں کو کھو دیا ہے۔‘امریکی حکام کا کہنا ہے کم از کم 34 فوجی اہلکاروں کو حملے سے ہونے والے ذہنی صدمے کے بارے میں جائزہ لیا جا رہا ہے اور کچھ زخمی فوجیوں کو طبی طور پر مزید علاج کے لیے اڈے سے نکال لیا گیا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ڈرون حملہ فوجیوں کے رہائشی کوارٹرز پر ہوا۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesامریکی سینٹرل کمانڈ اور صدر بائیڈن نے کہا کہ حملہ شام کی سرحد کے قریب شمال مشرقی اردن میں ایک اڈے پر کیا گیا۔ بعدازاں امریکی حکام نے اس علاقے کو ’ٹاور 22‘ کا نام دیا۔دسمبر میں امریکی حکام نے کہا تھا کہ سات اکتوبر کے بعد سے عراق اور شام میں امریکی اڈوں کو کم از کم 97 مرتبہ نشانہ بنایا گیا ہے۔ گذشتہ ماہ تین فوجیوں کے زخمی ہونے کے بعد امریکہ نے ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروہوں پر فضائی حملے کیے تھے۔ شمالی عراق میں ایک امریکی اڈے پر ہونے والے ڈرون حملے میں ایک اہلکار شدید زخمی ہوا تھا۔ قبل ازیں جنوری میں بغداد میں امریکہ کے ایک جوابی حملے میں ایک ملیشیا لیڈر مارا گیا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں پر حملے میں ملوث تھا۔اتوار کی صبح نشر ہونے والے اے بی سی نیوز کے ساتھ پہلے سے ریکارڈ شدہ انٹرویو میں امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل سی کیو براؤن نے کہا کہ خطے میں امریکہ کا مقصد ’تنازع کو وسعت نہ دینا‘ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مقصد تنازع کو روکنا ہے اور ہم مزید کشیدگی نہیں چاہتے جو خطے کو ایک وسیع تر تنازعے کی طرف لے جائے۔‘ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کی جانب سے خطے میں تجارتی جہازوں پر حملے کیے جانے کے بعد بحیرۂ احمر میں امریکی اور اتحادی فوجی بھی تعینات ہیں۔ یمن میں مقیم حوثی جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کی حمایت میں بحیرہ احمر میں جہازوں کو نشانہ بنا رہا ہیں۔امریکی فوج نے پہلے کہا تھا کہ ’ان غیر قانونی اقدامات کا غزہ کے تنازع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘امریکی سینٹرل کمانڈ نے کہا ہے کہ ’حوثیوں نے بحیرۂ احمر میں اندھا دھند فائرنگ کی ہے اور متعدد جہازوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جس سے دنیا کے 40 سے زیادہ ممالک کو متاثر ہوئے ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہReuters
کیا امریکی فوجیوں کی ہلاکت سے بائیڈن پر دباؤ بڑھا ہے؟ چیف بین الاقومی نامہ نگار لیز ڈوسیٹ کا تجزیہ
اردن میں ڈرون حملے میں تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت اور متعدد فوجیوں کے زخمی ہونے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکی کمانڈر انچیف صدر بائیڈن پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اسرائیل اور غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب کسی حملے میں امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔غزہ، اسرائیل تنازع کے باعث ایسا لگتا تھا کہ خطے میں کشیدگی تیزی سے بڑھنا ناگزیر تھا۔ اکتوبر کے وسط سے عراق اور شام میں امریکی فوجی تنصیبات متعدد بار ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے حملوں کی زد میں آ چکی ہیں، جس سے بڑی تعداد میں امریکی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ امریکہ نے بارہا جوابی کارروائی کرتے ہوئے دونوں ممالک میں اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔لیکن اس بار امریکہ کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہو گی کہ آیا ایران کو براہ راست اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ یہ ایک آپشن ہے جو کشیدگی میں اضافے کے خطرے سے بھرا ہوا ہے۔امریکی صدر کی جانب سے پہلی مبہم دھمکی دی گئی ہے کہ ’ہم تمام ذمہ داروں کو اپنے پسند کے وقت اور طریقہ کے مطابق جواب دیں گے۔‘امریکہ جانتا ہے کہ اب اسے اپنے فوجیوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر کے ناقدین اس بحران کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر دوبارہ ’ایران کے ساتھ نرم رویہ‘ رکھنے کا الزام لگائیں گے۔ لیکن انھوں نے اپنے دور صدارت کے دوران یہ پالیسی اپنائے رکھی ہے کہ غیر ملکی تنازعات میں امریکی افواج کو براہ راست ملوث ہونے سے بچایا جائے۔ ،تصویر کا ذریعہINDIAN NAVY
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.