اُردن، عراق اور پھر ترکی: تین دن سے مسلم ممالک میں گھومنے والے امریکی وزیر خارجہ کی بات کیوں نہیں سُنی جا رہی؟

علامتی تصویر

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

انتھونی بلنکن

  • مصنف, انتھونی زرچر
  • عہدہ, بی بی سی

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن تین روز سے مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ غزہ، اسرائیل جنگ کے تناظر میں پیدا ہونے والے حالات کو سنبھالا جائے، جو کسی بھی وقت قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔

جمعہ کو اسرائیل اور سنیچر کو اردن جانے کے بعد وہ مغربی کنارے، عراق اور پھر اتوار کے روز ترکی پہنچے۔ وہ جہاں بھی گئے وہاں انھیں طرح طرح کے چیلنجز اور ناامیدی کا سامنا کرنا پڑا۔

بلنکن کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن فی الحال کوئی اس پر چلنے کو تیار نہیں۔

جمعہ کے روز، بلنکن نے اسرائیلی رہنماؤں کو غزہ تک انسانی امداد پہنچانے اور یرغمالیوں کی رہائی کی راہ ہموار کرنے کے لیے (عارضی جنگ بندی پر) قائل کرنے کی کوشش کی، لیکن اسرائیلی وزیراعظم نے فوری طور پر انکار کر دیا۔

اگلے دن بلنکن نے اسرائیل کے پڑوسی عرب ممالک کے نمائندوں سے ملاقات کی جہاں ہر کوئی فوری جنگ بندی چاہتا ہے۔ اُردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے کہا کہ اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔

اس سب کے درمیان جب امریکہ میں صدر جو بائیڈن سے پوچھا گیا کہ کیا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کوئی پیش رفت ہوئی ہے تو انھوں نے کہا کہ اس میں ’اچھی‘ پیش رفت ہوئی ہے۔

بائیڈن انسانی بنیادوں پر جنگ میں توقف کے امکانات کے بارے میں پُرامید ہیں، لیکن مشرق وسطیٰ میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں کس قدر تناؤ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اتوار کو بلنکن جہاں بھی گئے، انھوں نے ان ملاقاتوں اور دوروں کو انتہائی رازداری میں رکھا۔

وہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سے ملاقات کے لیے بکتر بند گاڑیوں کے قافلے میں رم اللہ پہنچے۔ سڑک کی حفاظت فلسطینی پیلس گارڈز نے سنبھالی تھی۔

جب وہ عراق گئے تو رات کے اندھیرے میں گئے۔ بلنکن اور ان کے ساتھ موجود سفارتکاروں نے جب بغداد ایئرپورٹ سے امریکی سفارتخانے کے لیے ہیلی کاپٹر کی پرواز کی تو ان سب نے بلٹ پروف جیکٹس اور ہیلمٹ پہن رکھے تھے۔ اس کے بعد وہ سب گاڑیوں کے قافلے میں وزیر اعظم شیعہ السودانی سے ملنے گئے۔

آج یعنی پیر کے روز وہ ترک حکام سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اس سے ایک روز قبل ترک صدر رجب طیب اردوغان نے اسرائیل میں تعینات اپنے سفیر کو واپس بلا کر کہا تھا کہ اب ان کا نیتن یاہو سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ اردوغان نے کہا کہ ’ہم نے انھیں مٹا دیا ہے، انھیں باہر پھینک دیا ہے۔‘

علامتی تصویر

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

امریکی وزیر خارجہ رات کے اندھیرے میں عراق کے وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے پہنچے اور وہ بلٹ پروف جیکٹ پہنے ہوئے تھے

پیچیدہ صورتحال

جیسے ہی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن ایک طرف آگ بجھاتے ہیں تو دوسری طرف سے آگ کے شعلے نکلنے لگتے ہیں۔

میں نے بغداد کے ہوائی اڈے پر بلنکن سے پوچھا کہ کیا صدر بائیڈن کی طرح وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کو (غزہ پر حملوں میں) توقف کے لیے آمادہ کر لیا جائے گا اور کیا وہ عرب ممالک کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ ابھی جنگ بندی ممکن نہیں؟

اس نے دونوں سوالوں کا جواب ’ہاں‘ میں دیا۔

امریکہ اسرائیل کے ساتھ مسلسل بات چیت کر رہا ہے تاکہ غزہ تک انسانی امداد پہنچائی جا سکے۔

جہاں تک عرب ممالک کا تعلق ہے، بلنکن نے کہا کہ ’جنگ بندی کے بارے میں مختلف آرا ہیں، لیکن ہر وہ شخص جس سے انھوں نے بات کی اس کا خیال ہے کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر (جنگ میں) اس وقفے سے یرغمالیوں کی رہائی، غزہ کو امداد فراہم کرنے اور وہاں پھنسے غیر ملکی شہریوں کو نکالنے میں مدد ملے گی۔

انھوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں اہم پیش رفت ہوئی ہے لیکن اس معاملے میں کچھ پیچیدگیاں ہیں۔

علامتی تصویر

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

امریکی وزیر خارجہ نے بکتر بند گاڑیوں کے قافلے میں مغربی کنارے میں رم اللہ کا سفر کیا

فی الحال ایسا نہیں لگتا کہ عرب ممالک یا اسرائیل میں سے کوئی بلنکن کی بات سُنے گا کیونکہ ہر کسی کو اپنے ملک کے اندر سے عوامی دباؤ کا سامنا ہے۔

جمعہ کو جب بلنکن اسرائیلی صدر آئزک ہرزوک کے ساتھ میڈیا کے سامنے آئے تو پیچھے سے اسرائیلی مظاہرین کی آوازیں سنی جا سکتی تھیں۔ یہ لوگ اپنی حکومت سے حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے لوگوں کی رہائی کے لیے مزید کوششیں کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

دریں اثنا فلسطین کے حامی مظاہرین پورے خطے، یورپ اور امریکہ میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

امریکہ میں مظاہرین نے وائٹ ہاؤس کی باؤنڈری وال پر چڑھنے کی کوشش کی۔ پیرس، لندن اور برلن میں بھی مظاہرے ہوئے۔

استنبول میں مظاہرین نے ایک بینر اٹھا رکھا تھا جس میں بلنکن کو نسل کشی میں شریک قرار دیا گیا تھا۔

علامتی تصویر

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

انٹونی بلنکن کی رم اللہ میں فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کو خفیہ رکھا گیا تھا

اب تک کیا حاصل ہوا؟

بلنکن کے دورے سے جو مثبت بات سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ تمام فریقین سے بات کر رہے ہیں جس کے باعث اس تنازع کا دائرہ ابھی تک نہیں بڑھا ہے۔

جو بائیڈن نے اکتوبر میں اردن میں عرب ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کرنا تھی لیکن غزہ کے ہسپتال میں دھماکے کے بعد اسے اچانک منسوخ کر دیا گیا۔ اس کے بعد بلنکن کی ان ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔

وہ اپنے عرب ہم منصبوں کو فلسطینیوں کے طویل المدتی مستقبل پر غور کرنے اور خطے میں دیرپا امن کی راہ تلاش کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں لیکن اس میں زیادہ کامیابی حاصل ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

اُردن کے وزیر خارجہ صفادی کا کہنا ہے کہ ’ہم کسی بھی چیز کے بارے میں کیسے سوچ سکتے ہیں جب ہم نہیں جانتے کہ جنگ کے بعد غزہ میں کیا صورتحال ہو گی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کیا ہم تباہ شدہ زمین کے بارے میں بات کریں گے؟‘ کیا ہم اس آبادی کے بارے میں بات کریں گے جسے مہاجر بنایا گیا ہے؟‘

بائیڈن نے 12 اکتوبر کو وائٹ ہاؤس میں یہودی برادری کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ اسرائیل اور غزہ میں ہونے والی خونریزی اور سانحے کے بعد مشرق وسطیٰ میں کچھ بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔‘

امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ ’لیکن پھر بھی مجھے پیدائشی امید پرست کہا جاتا ہے۔‘

لیکن اگر ہم مشرق وسطیٰ کے حالات کو دیکھیں تو یہاں بہت کم لوگ پُرامید ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ