اومیکرون: کورونا وائرس کی نئی قسم کی وجہ سے یورپ میں ایک بار پھر سماجی پابندیاں نافذ
کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے یورپ بھر میں پھیلنے کے بعد یورپی حکام سماجی پابندیاں دوبارہ نافذ کر رہے ہیں۔
جرمنی اور پرتگال نے وائرس پھیلنے کے پیشِ نظر کرسمس کے بعد سخت تر سماجی دوری کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔
واضح رہے کہ اومیکرون کئی یورپی ممالک میں اس وقت کووڈ کی سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والی قسم ہے۔
برِ اعظم یورپ میں عالمی ادارہ صحت کے اعلیٰ ترین عہدیدار ہانس کلوگ نے کہا ہے کہ متاثرین کی تعداد میں اضافہ یہاں کے ممالک کے نظامِ صحت انہدام کے قریب لا کھڑا کرے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ ‘ایک اور طوفان’ آ رہا ہے اور حکومتوں کو متاثرین کی تعداد میں خاصے اضافے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
جرمنی نے اعلان کیا ہے کہ 28 دسمبر سے نجی محفلوں میں صرف 10 لوگوں کی شرکت کی پابندی دوبارہ نافذ ہو جائے گی جبکہ نائٹ کلبز بند کر دیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ 28 دسمبر کے بعد سے ہی فٹ بال میچز بھی صرف بند دروازوں کے پیچھے ہوں گے۔
جرمنی کے چانسلر اولاف شولز نے منگل کو کہا کہ ‘کورونا وائرس کرسمس کی چھٹیاں نہیں کرتا۔ ہم اس اگلی لہر کے بارے میں آنکھیں نہیں بند کر سکتے نہ کرنی چاہییں جو اب ہمارے سر پر کھڑی ہے۔’
اسی دوران پرتگال نے بھی 26 دسمبر سے نائٹ کلبز اور شراب خانوں کی بندش کا حکم جاری کرتے ہوئے اس تاریخ سے نو جنوری تک گھر سے کام کرنا لازمی قرار دے دیا ہے۔
اس کے علاوہ کھلی فضا میں اجتماعات کو بھی صرف 10 لوگوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔
فن لینڈ میں بھی شراب خانوں اور ریستورانوں کو 24 دسمبر کو رات 10 بجے بند ہو جانا ہو گا۔ اور اس کے بعد 28 دسمبر سے تین ہفتوں کے لیے ریستورانوں کو چھ بجے بند ہونا ہو گا جبکہ نشستیں محدود رکھی جائیں گی۔
یورپ کے ویزا فری شینگن ممالک سے آنے والوں کو کووڈ کا منفی ٹیسٹ دکھانا ہو گا۔
سوئیڈن میں شراب خانے، کیفے اور ریستوران بدھ سے صرف محدود تعداد میں موجود نشستوں پر موجود لوگوں کو ہی کھانا فراہم کر سکیں گے۔
برطانیہ میں وزیرِ اعظم بورس جانسن کرسمس سے قبل انگلینڈ میں نئی پابندیوں کو خارج از امکان قرار دیا ہے تاہم سکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ سب نے ہی سماجی میل جول پر حدود نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یورپ میں اب تک کووڈ کے آٹھ کروڑ 90 لاکھ متاثرین سامنے آ چکے ہیں اور 15 لاکھ کے قریب افراد کی اموات ہو چکی ہیں۔
اومیکرون کا پتا سب سے پہلے گذشتہ ماہ برِ اعظم افریقہ کے جنوبی خطے میں پایا گیا تھا مگر اب یہ دنیا بھر میں پھیل چکا ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں سے حاصل شدہ ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ اومیکرون تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے تاہم اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ یہ زیادہ سنگین بیماری کا سبب بنتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ اس کے یورپی خطے میں جس میں روس اور ترکی بھی شامل ہیں، اس میں 53 میں 38 ممالک میں اومیکرون ہی کووڈ کی غالب قسم ہے۔
مزید پڑھیے
ادارے کے ہانس کلوگ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ‘ہم ایک اور طوفان آتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ کچھ ہی ہفتوں میں اومیکرون اس خطے کے زیادہ تر ممالک میں غالب قسم ہو گا اور پہلے سے ہی دباؤ کے شکار صحت کے نظام تباہی کے کنارے تک پہنچ جائیں گے۔’
اُنھوں نے کہا کہ ‘نئے کووڈ انفیکشنز کی بڑی تعداد کے باعث ہسپتالوں میں داخلے میں اضافہ ہو سکتا ہے اور صحت کے نظام اور دیگر اہم خدمات وسیع پیمانے پر متاثر ہو سکتے ہیں۔’
انگلینڈ میں حکومت نے اعلان کیا ہے کہ کووڈ سے متاثر افراد کا اگر ٹیسٹ دو مرتبہ منفی آ جائے تو وہ تین دن قبل خود ساختہ تنہائی ختم کر سکتے ہیں۔
اب اگر وہ چھٹے اور ساتویں دن منفی لیٹرل فلو ٹیسٹ کے نتائج دکھا سکیں تو اُنھیں 10 کے بجائے صرف سات دن ہی قرنطینے میں رہنا ہو گا۔
وزیرِ صحت ساجد جاوید نے کہا کہ اس سے اومیکرون کے تیزی سے پھیلنے کے باعث پیدا ہونے والی مشکل صورتحال قابو میں رہے گی۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ تبدیلی ماہرینِ صحت کی جانب سے تازہ ترین ہدایات کی روشنی میں لائی جا رہی ہے۔
حکومت نے کہا ہے کہ اگر لوگوں کو کئی دن گزرنے کے باوجود بھی خود میں کووڈ کی علامات محسوس ہو رہی ہوں تو اُنھیں قبل از وقت خود ساختہ تنہائی ختم نہیں کرنی چاہیے۔
اور ساتویں دن تنہائی سے باہر آنے والے لوگوں کو تنبیہہ کی گئی ہے کہ وہ خطرے کی زد میں موجود لوگوں سے میل جول کم سے کم رکھیں، پرہجوم اور گھٹن زدہ جگہوں پر نہ جائیں، اور گھر سے کام کریں۔
Comments are closed.