پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف کیس پر سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے بھی اختلافی نوٹ جاری کردیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ گزشتہ روز جسٹس امین الدین خان نے کیس سننے سے معذرت کی۔ بینچ اٹھنے کے بعد اپنے چیمبر میں انتظار کرتا رہا، مگر چیف جسٹس کی جانب سے مزید کارروائی کی کوئی معلومات نہیں ملی۔
انہوں نے کہا کہ گھر پہنچا تو چیف جسٹس کی جانب سے دستخط کے لیے حکم نامہ موصول ہوا، حکم نامہ کھلی عدالت میں نہیں لکھوایا گیا۔
جمال مندوخیل نے نوٹ میں مزید کہا کہ حکم نامہ بغیر مشاورت کے میری غیرموجودگی میں لکھوایا گیا، بینچ کے 3 ممبران نے نجانے کن وجوہات کی بنا پر مجھے مشاورت میں شامل کرنا ضروری نہیں سمجھا۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ چاہتا تھا کہ یکم مارچ کے حکم نامے کے تناسب پر بنا تنازع پہلے حل کیا جائے، یکم مارچ کا اکثریتی عدالتی حکم ابھی تک جاری نہیں کیا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے یہ بھی لکھا کہ یکم مارچ کے حکم نامے کے معاملے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، سیاسی جماعتوں کے وکلاء نے بھی معاملہ اٹھایا لیکن بینچ کے ارکان نے جواب نہیں دیا۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ ان حالات میں بینچ کا حصہ رہنا مناسب نہیں سمجھتا، بینچ کا حصہ رہ کر اپنے ساتھی ججز کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کوئی شک نہیں کہ موجودہ کیس میں اہم آئینی امور زیر بحث ہیں، اہم آئینی امور فل کورٹ کی صورت میں مشترکہ دانش سے ہی حل کرنے چاہئیں۔
اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا کہ فل کورٹ جب بھی بنا اس کے لیے دستیاب ہوں، بصورت دیگر دعا ہے کہ ساتھی ججز جو فیصلہ دیں وہ آئین کی بالادستی قائم کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کیس یکم مارچ کے فیصلے کا ہی تسلسل ہے، اول دن سے کہتا رہا کہ کورٹ یکم مارچ کے آرڈر آف دی کورٹ کا تنازع حل کرے، جو اب تک جاری نہیں ہوا ہے۔
Comments are closed.