انڈیپینڈنٹ کمیشن فار ایکویٹی اِن کرکٹ نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں انگلش کرکٹ میں وسیع پیمانے پر نسل پرستی، امتیازی اور طبقاتی سلوک کا انکشاف کیا ہے۔
137 صفحات پر مشتمل دو سال کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انگلش کرکٹ ادارہ جاتی اور منظم نسل پرستی کا شکار ہے، انگلش کرکٹ میں جنس پرستی، نسل پرستی اور اشرافیہ کو ترجیح سنجیدہ معاملہ ہے۔
آئی سی ای سی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ نسل پرستی نے انگلش کرکٹ میں بہترین سیاہ فام کھلاڑیوں کو کھو دیا، عدم اعتماد کی وجہ سے کھلاڑی بورڈ کے سامنے شکایات نہیں کرتے۔
رپورٹ کے مطابق اکثر امپائر بدسلوکی کی شکایات نظر انداز کر دیتے ہیں، کرکٹ میں سرکاری اسکولوں پر نجی اسکولوں کی اشرافیہ کو ترجیح دی جاتی ہے۔
آئی سی ای سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرکٹ میں طبقاتی تفریق اور خواتین کرکٹر کو کمتر سمجھا جاتا ہے، خواتین کو لارڈز کرکٹ گراونڈ میں ٹیسٹ کھیلنے نہیں دیا جاتا۔
رپورٹ کے مطابق خواتین کو فیصلہ سازی میں کم نمائندگی دی جاتی ہے اور انہیں شرمناک حد تک کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔انٹرنیشنل میچوں میں خواتین کو مرد کرکٹر کے برابر معاوضہ دیا جائے۔
آئی سی ای سی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ تحقیقاتی عمل میں سب سے زیادہ 87 فیصد پاکستانی کمیونٹی نے حصہ لیا، کرکٹ میں نسل پرستی کو تشویشناک بحران ماننے تک اسکا خاتمہ ممکن نہیں۔
سابق وزیراعظم سرجان میجر کی رپورٹ کے دیباچے میں تحریر کیا گیا ہے کہ وقت آگیا ہے کھیلوں میں مساوات اور مختلف النسل افراد کی شمولیت بڑھانے کا جائزہ لیا جائے۔
Comments are closed.