انگریز راج کی وہ آيائیں جنھیں برطانیہ پہنچنے کے بعد بھلا دیا گیا
- گگرن سبھروال
- ساؤتھ ایشیا ڈائسپورا رپورٹر
لندن کی اس عمارت پر، جہاں جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا سے آنے والی سینکڑوں نینیاں (یعنی آیائیں، دائیاں یا گھریلو خادمائیں) رہتی تھیں، یادگاری نیلی تختی نصب کی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ ان آیاؤں کو برطانوی خاندان انگریز راج کے دوران ایشیا سے اپنے ہمراہ برطانیہ لائے تھے مگر بعدازاں انھیں بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔
بلیو پلاک یعنی نیلی تختی والی سکیم برطانیہ کی ’انگلش ہیریٹیج چیریٹی‘ کے ذریعے چلائی جاتی ہے اور لندن بھر میں مخصوص عمارتوں کی تاریخی اہمیت کے احترام میں اسے عمارتوں پر نصب کیا جاتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں نیلی یادگاری تختی ان عمارتوں پر لگائی جاتی ہے جن کی کوئی تاریخی اہمیت ہو۔
نیلے رنگ کی دائرہ نما تختیاں عمارتوں کے داخلی راستوں کے قریب بیرونی دیواروں پر لگائی جاتی ہیں جو ماضی کی اہم شخصیات اور ان عمارتوں کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتی ہیں۔
یہ آیائیں کون تھیں؟
مشرقی لندن کے ہیکنی میں 26 کنگ ایڈورڈز روڈ پر واقع آیاؤں کے گھر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں سینکڑوں آیاؤں اور دائيوں (ہندوستانی اور چینی نژاد) کو رکھا گیا تھا جنھیں برطانوی منتظمین اور تمام برطانوی سلطنت کے کاروباری افراد اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے لائے تھے۔
ان میں سے زیادہ تر خواتین ہندوستان، چین، ہانگ کانگ، برٹش سیلون (اب سری لنکا)، برما (میانمار)، ملائیشیا اور جاوا جیسے ممالک سے آئی تھیں۔
تاریخ داں ڈاکٹر روزینہ وسرام ‘ایشینز ان دی برٹین: 400 ایئرز آف ہسٹری’ کی مصنفہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘آیا اور اماں یا دائیاں بنیادی طور پر گھریلو ملازم تھے اور نوآبادیاتی ہندوستان میں برطانوی خاندانوں کی ریڑھ کی ہڈی تھے۔
انھوں نے بچوں کی دیکھ بھال کی، ان کو تفریح فراہم کی، انھیں کہانیاں سنا سنا کر سلانے کا کام کیا۔ انھوں نے میم صاحب کے لیے کچھ چھوٹے موٹے کام بھی انجام دیے اور ان میں سے بہت سے خاندان اپنی آیاؤں کو ان ممالک سے طویل مشکل سمندری سفر کے ساتھ برطانیہ لے آئے تاکہ وہ ان کے بچوں کی دیکھ بھال کر سکیں۔ ان نینیوں کو عام طور پر خاندان کے خرچ پر گھر واپسی کا ٹکٹ فراہم کیا جاتا تھا۔’
مشرقی لندن کے ہیکنی میں 26 کنگ ایڈورڈز روڈ پر واقع آیاؤں کا گھر
لٹریچر اینڈ مائیگریشن کی لیکچرر ڈاکٹر فلورین سٹیڈلر نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک بار جب یہ خواتین برطانیہ پہنچ گئیں تو ان میں سے اکثر کو ان کے برطانوی آجروں نے کسی تنخواہ اور گزر بسر کے انتظام کے بغیر نوکری سے نکال دیا اور بے یارو مددگار چھوڑ دیا۔
انھوں نے کہا کہ ‘اس کی وجہ سے آیاؤں کو خود اپنی کفالت کے لیے مجبور ہونا پڑا اور بہت سی پھنسی ہوئی آیاؤں نے مقامی اخبارات میں انڈیا جانے والی کسی فیملی کے ساتھ ہندوستان واپس جانے کے ٹکٹ کا اشتہار دیا اور اس دوران وہ اپنے انتظار کے ایام زیادہ کرائے والی گندی اور ناقص رہائش گاہوں پر گزارنے لگیں۔
’جب ان کے پیسے ختم ہو گئے تو ان عورتوں کو کرائے کے گھروں سے نکال باہر کیا گیا۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگوں کو اپنے گھر واپس ہندوستان کے سفر کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہونا پڑا۔’
،تصویر کا ذریعہGetty Images
سنہ 1850 کی دہائی تک جیسے جیسے سفر معمول کی بات ہوتی گئی برطانیہ میں لائی جانے والی آیاؤں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔
ایک اندازے کے مطابق ہر سال 100 سے 140 کے درمیان آیائیں برطانیہ کا سفر کرتی تھیں۔ اوپن یونیورسٹی کے ‘میکنگ برٹین’ تحقیقی منصوبے کے مطابق ان بے یارو مددگار آیاؤں کو رکھنے کے لیے الزبتھ راجرز نامی خاتون نے سنہ 1825 میں لندن کے آلڈ گیٹ میں ایک قیام گاہ تیار کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
راجرز کی موت کے بعد اس رہائش گاہ کو کسی کرسچن ہینسن اور ان کی اہلیہ نے اپنے قبضے میں لے لیا جنھوں نے خاص طور پر اس جگہ کی تشہیر سفر پر آنے والی آیاؤں کی قیام گاہ کے طور پر کی۔
اس جوڑے نے گھر کو ملازمت فراہم کرنے والی کسی کمپنی کی طرح چلایا، اور جس کسی کو آیا کی ضرورت ہوتی وہ وہاں آ کر اپنی فرمائش رکھتے۔
سنہ 1900 میں، لاجنگ ہاؤس کو لندن سٹی مشن (ایل سی ایم) نے اپنے قبضے میں لے لیا جس نے آیا کے گھر کو پہلے 26 کنگ ایڈورڈز روڈ اور پھر 1921 میں 4 کنگ ایڈورڈز روڈ پر منتقل کیا۔
ڈاکٹر روزینہ وسرام نے تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ قبل آیاؤں پر تحقیق شروع کی تھی اور انھوں نے ہمیں بتایا کہ ‘ہر سال تقریبا 200 آیائيں اس آیہ منزل میں رہتی تھیں۔
ان میں سے بعض خواتین چند دن اور بعض مہینوں تک رہتیں۔ یہ آیائیں خود اپنی رہائش کا خرچہ نہیں دیتی تھیں۔ آیا گھر یا آیا منزل کا خرچ آیاؤں یا اماؤں کے واپسی کے ٹکٹ کے خرچ پر چلتا تھا۔ ٹکٹ وہ خاندان دیا کرتے تھے جو انھیں انڈیا سے لاتے تھے۔
پھر میٹرن ان ٹکٹ کو دوسرے خاندان کو بیچ دیتی جسے مشرق کی طرف سفر کے لیے کسی آیا کی خدمت کی ضرورت ہوتی۔ اس کے علاوہ آیا گھر کو مقامی چرچ کمیونٹیز سے بھی عطیات موصول ہوتے اور ان ذرائع سے حاصل ہونے والی رقم سے آیاؤں کو ‘مفت کھانا اور رہائش’ فراہم کی جاتی۔’
آیا کا گھر کسی ہاسٹل یا پناہ گاہ کی طرح نہیں تھا۔ ڈاکٹر فلورین سٹیڈلر کے مطابق اس کا ایک بنیادی مقصد آیاؤں کو عیسائی مذہب قبول کرنے کی طرف راغب کرنا بھی تھا۔
انھوں نے کہا: ‘جو میٹرن آیا گھر چلاتے تھے انھیں ہندوستان میں مشن کے کام کا تجربہ تھا، اور وہ روانی سے ہندوستانی زبانیں بولتے تھے اور آیاؤں کو حمدیہ کلام سکھایا جاتا تھا اور جب ممکن ہو چرچ لے جایا جاتا تھا۔ آیا ہوم میں ایک اختیاری روزانہ سروس بھی تھی اور یہاں تک کہ بیڈ روم میں بھی مذہب کے متعلق باتیں ہوتی تھیں۔
’تاہم، ہم نہیں جانتے کہ کتنی آیاؤں مسیحی مذہب قبول کیا کیونکہ اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ اور نہ ہی ان کے پاس اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے کوئی ریکارڈ موجود ہے کہ ان آیاؤں کو واقعی انگلستان میں عیسائیت اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔’
برطانوی بچے ایشیائی آیاؤں کے ساتھ
آیا کے گھر کو نیلی تختی کیسے ملی؟
20ویں صدی کے وسط میں برطانوی سلطنت کے خاتمے کے ساتھ، آیاؤں اور اماؤں کی ضرورت کم ہوتی گئی، اور اسی طرح ان کی تعداد بھی کم ہوتی گئی۔ 4 کنگ ایڈورڈ روڈ پر واقع عمارت اب نجی رہائش گاہوں کا مسکن ہے۔
اگر 30 سالہ فرحانہ ماموجی نہ ہوتیں تو آیاؤں کی کہانی اور برطانوی سلطنت اور برطانوی تاریخ میں ان کی شراکت کو فراموش کر دیا جاتا۔ وہ گذشتہ چار سالوں سے ان نوآبادیاتی آیاؤں اور اماؤ کے بارے میں عالمی سطح پر بیداری پیدا کرنے کے کام میں تندہی کے ساتھ لگی ہوئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
مز ماموجی آیاز ہوم پروجیکٹ کی بانی ہیں اور انھوں نے پہلی بار اگست سنہ 2018 میں اس گھر کے بارے میں سنا جب وہ بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم ‘اے پیسیج ٹو برٹین’ دیکھ رہی تھیں جس میں انھوں نے ہیکنی میں آیا کے گھر کا بہت مختصر طور پر ذکر سنا جو کہ مز ماموجی کی رہائش کے قریب ہی واقع تھا۔
اس سے ان کی آیا گھر میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ انھوں نے کچھ دنوں بعد اس جگہ کا دورہ کیا اور جب وہ عمارت پر پہنچیں تو انھوں نے یہ دیکھا کہ اس کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کی نشاندہی کرنے والا کوئی نشان وہاں موجود نہیں تھا اور اس بات نے انھیں بہت متاثر کیا۔
انڈین آیا
مموجی نے ہمیں بتایا: ‘مشرقی لندن میں رہنے والی ایک جنوبی ایشیائی خاتون کے طور پر میں نے خود کو آیاؤں اور ان کی ان کہی کہانیوں سے جڑا ہوا محسوس کیا۔ میں نے سوچا کہ گھر ایک ایسی چیز ہے جو بہت اہم ہوتی ہے اور یہاں کی مقامی کمیونٹی کے لیے واقعی کچھ معنی رکھتی ہے، کیونکہ اس کا میرے لیے کچھ مطلب ہے۔
’حقیقت یہ ہے کہ وہاں یہ کہنے کے لیے بالکل بھی کچھ نہیں تھا کہ یہ دنیا بھر کی بہت سی ایشیائی خواتین کے لیے ایک انتہائی اہم جگہ تھی اور اس بات نے مجھے بے چین کر دیا اور مجھے واقعی محسوس ہوا کہ مجھے اس بارے میں کچھ کرنا چاہیے۔’
آیاز ہوم کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم، مز ماموجی نے آیا کے گھر پراجیکٹ کا آغاز کیا اور اس اقدام کے ایک حصے کے طور پر، انھوں نے اپنے مقامی ایم پی کے ساتھ آیاز ہوم کے باہر ایک نیلی تختی لگانے کے لیے رابطہ کیا۔
اس ملاقات کے بعد انھوں نے نیلی تختی کے لیے درخواست دی جسے انگلش ہیریٹیج نے مختصر فہرست میں شامل کیا۔ اور اس دوران، مز ماموجی نے آیاؤں کے بارے میں اپنی تحقیقات جاری رکھیں، ان کی اولاد کا پتہ لگانے کی کوشش کی جو کہ ایک ناممکن کام ثابت ہوا کیونکہ ان میں سے بہت سے نام تاریخ سے مٹ چکے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہPictures from History
انھوں نے ہمیں بتایا: ‘ان میں سے بہت سے نام مٹا دیے گئے تھے یا انھیں سرے سے درج ہی نہیں کیا گیا تھا کیونکہ انہیں اتنا اہم نہیں شمار کیا گیا تھا۔
’یہاں تک کہ میں نے بحریہ کے ریکارڈز تلاش کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی جس میں ان خاندانوں کے نام تو تھے جنھوں نے برطانیہ سے آنے یا جانے کا سفر کیا لیکن ان کے ساتھ آیاؤں کا نام درج نہیں تھا۔ اس میں صرف یہ درج تھا کہ کسی مخصوص خاندان کی آیا بھی تھی۔‘
جب وہ انگلش ہیریٹیج کی جانب سے نیلی تختی لگائے جانے کے بارے میں حتمی فیصلہ سننے کا انتظار کر رہی تھیں اس دوران مارچ سنہ 2020 میں مز ماموجی نے ہیکنی میوزیم میں برطانوی سلطنت کے دوران آیاؤں کے کردار کی تلاش کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا۔
انھوں نے امید ظاہر کی کہ اس تقریب کے ذریعے وہ لوگوں کو آیاؤں اور برطانوی تاریخ میں ان کے ادا کردہ اہم کردار کے بارے میں آگاہ کرنے میں کوئی امداد فراہم کر سکیں گی اور ان خواتین کو وہ پہچان دلائیں گی جس کی وہ واقعی مستحق ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ماموجی کے جوش و جذبے سے متاثر ہو کر ہیکنی میوزیم کے عملے نے بھی آیاؤں کی تاریخ پر اپنی تحقیق شروع کی تاکہ میوزیم میں آیاؤں کے گھر کے بارے میں جو مواد موجود ہیں ان میں توسیع کی جائے۔
،تصویر کا ذریعہ11610
ہیکنی میوزیم کی منیجر نیتی آچاریہ نے ہمیں بتایا: ’میری تحقیق کے ذریعے میں نے وہاں رہنے والے لوگوں کے ذریعے آیاؤں کو سمجھنے کی کوشش پر توجہ مرکوز کی ہے۔ گھر میں رہنے والے لوگوں کی شناخت کرنے کے لیے، مجھے بہت سے ذرائع سے چانچ کرنی پڑی، بشمول 1878 سے 1960 تک برطانیہ میں آنے اور جانے والے لوگوں کی مسافر فہرستیں، مردم شماری کے رجسٹر، اور بہت سے محفوظ دستاویزات۔
’تمام مختلف ذرائع نے کہانی کے چھوٹے چھوٹے حصوں کو یکجا کرنے میں مدد کی تاکہ مجموعی تصویر بنانے میں مدد مل سکے۔‘
لیکن مس اچاریہ کی تحقیق ان آیاؤں پر دستیاب محدود معلومات کی وجہ سے ایک مشکل کام ثابت ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ’اس تحقیق کے ساتھ بہت سے چیلنجز منسلک ہیں، جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ آیاؤں اور اماؤں نے ان کی کہانیوں کو بیان کرنے میں مدد کے لیے بہت کم مواد چھوڑا ہے۔ آرکائیو کے مواد بنیادی طور پر ان خاندانوں کے بارے میں ہیں جن کی اپنی خواتین ہیں بجائے اس کے کہ ان میں آیاؤں اور اماؤں کا ذکر ہو۔ مجھے ابھی تک کوئی میوزیم ایسا نہیں ملا جس میں کسی آیا یا اماں سے متعلق کوئی مواد موجود ہو۔’
،تصویر کا ذریعہ11859
انھوں نے مزید کہا: ‘اکثر مسیحی ناموں (بہت سے لوگ عیسائیت اختیار کر چکے ہیں) یا خاندانی نام جیسے ‘آیا برڈ’ استعمال کرنے سے خواتین کی شناخت مکمل طور پر مٹ جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے دیگر تاریخی ذرائع سے خواتین کا پتہ لگانا بہت مشکل ہو جاتا ہے اس لیے اکثر ہمارے پاس صرف مختلف لوگوں کی کہانیوں کی جھلک ہی مل پاتی ہے جس کے بعد ہمیں مجموعی تصویر کو سمجھنے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔’
فروری 2022 میں انگلش ہیریٹیج نے مز ماموجی کو مطلع کیا کہ ان کی درخواست کامیاب رہی، اور یہ کہ آیاز ہوم کو نیلی تختی ملے گی۔ تختی کی نقاب کشائی کی تقریب آج جمعرات کے روز ہیکنی میں ہونے والی ہے اور مز ماموجی نے تقریب سے قبل اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا: ’میں واقعی خوش ہوں کہ آیا کے گھر کو یہ نیلی تختی مل رہی ہے کیونکہ یہ خواتین واقعی اس اعزاز کی مستحق ہیں۔‘
ڈاکٹر روزینہ اور ڈاکٹر سٹیڈلر نے بھی مس ماموجی کے جذبات کی ترجمانی کی اور ہمیں بتایا: ‘ہمیں امید ہے کہ یہ بلیو پلاک برطانیہ میں آیاؤں کی کہانی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ بیداری پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔ ان خواتین کے لیے یہ عوامی پذیرائی حاصل کرنا اور ان کی کہانیوں کو برطانوی تاریخ کے ایک حصے کے طور پر منظر عام پر لانا ضروری ہے۔’
جواہر لعل نہرو اور موہن داس گاندھی
وہ ہندوستانی جنھیں نیلی تختی ملی
آیاز ہوم یا آیاہ کے گھر سے پہلے، نیلی تختی لندن میں دیگر مشہور ہندوستانیوں جیسے نور عنایت خان، مہاتما گاندھی، راجہ رام موہن رائے، بی آر امبیدکر، جواہر لال نہرو، وی کے مینن، سری اروبندو، ونائک دامودر ساورکر، رابندر ناتھ ٹیگور، لوک مانیہ تلک، اور سردار ولبھ بھائی پٹیل وغیرہ سے منسلک گھروں اور جگہوں پر لگائی گئی ہے۔
سنہ 2020 میں، دوسری جنگ عظیم کی جاسوس نور عنایت خان ہندوستانی نژاد پہلی خاتون بن گئیں جنھیں بلیو پلاک کے ساتھ یادگار بنایا گیا جس کی نقاب کشائی بلومسبری کی 4 ٹیویٹن اسٹریٹ پر کی گئی، جہاں نور عنایت خان سنہ 1942 اور 1943 کے درمیان مقیم تھیں۔
دو مختلف عمارتوں پر مہاتما گاندھی کی یاد میں دو تختیاں ہیں۔ ایک سنہ 1954 میں کنگسلے ہال میں پر لگایا گیا تھا جہاں گاندھیس نہ 1931 میں برطانیہ کے دورے کے دوران ٹھہرے تھے، جبکہ دوسرے کی نقاب کشائی 1986 میں 20 بیرن کورٹ میں ہوئی تھی جہاں گاندھی رہتے تھے جب وہ 1888 میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے لندن پہنچے تھے۔
سنہ 2007 میں روحانی پیشوا اور شاعر سری اروبندو کی یاد میں شیفرڈز بش کے 49 سینٹ سٹیفنز ایونیو پر نیلے رنگ کی تختی لگائی گئی تھی، جو وہاں سنہ 1884 سے 1887 تک تین سال تک مقیم رہے۔
پنڈت جواہر لال نہرو کے اعزاز میں ایک تختی 1989 میں نوٹنگ ہل کے 60 ایلجن کریسنٹ میں لگائی گئی تھی جہاں وہ سنہ 1910 اور 1912 کے درمیان رہے تھے۔
Comments are closed.