قومی اسمبلی نے گزشتہ روز آئندہ مالی سال 24-2023ء کا وفاقی بجٹ اور ترمیم شدہ فنانس بل 2023ء منظور کر لیا، جس کے بعد قائم مقام صدر صادق سنجرانی نے آج اس فنانس بل پر دستخط کر دیے ہیں۔
اس بل میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے نظرِ ثانی کی گئی ہے اور ٹیکس وصولیوں کا ہدف بڑھایا گیا ہے۔
آئی ایم ایف کے مطالبے پر بڑی آمدنی والے تنخواہ دار و غیر تنخواہ دار طبقے پر بھی ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے۔
وفاقی بجٹ کا کل تخمینہ 14 ہزار 480 ارب روپے ہے، وفاقی ترقیاتی بجٹ ساڑھے 900 ارب روپے ہوگا۔
بجٹ میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف 9 ہزار 200 ارب روپے سے بڑھا کر 9 ہزار 415 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔
پنشن کی ادائیگی 761 ارب روپے سے بڑھا کر 801 ارب روپے کر دی گئی ہے۔
بجٹ میں مزید 215 ارب روپے کے ٹیکس عوام پر عائد کیے گئے ہیں۔
پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ٹیکس 1 فیصد سے بڑھا کر 2 فیصد کر دیا گیا ہے اور اس سے مزید 45 ارب روپے حاصل ہونے کا امکان ہے۔
بجٹ میں تنخواہ دار افراد کے لیے ٹیکس کی شرح میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، جہاں قابلِ ٹیکس آمدنی 12 لاکھ روپے سالانہ سے زیادہ اور 24 لاکھ روپے تک ہو گی وہاں 12 لاکھ روپے سے زائد آمدن پر 12.5 فیصد انکم ٹیکس جبکہ 15 ہزار روپے فکسڈ انکم ٹیکس دینا ہو گا۔
جہاں قابلِ ٹیکس آمدنی 24 لاکھ روپے سے زیادہ لیکن 36 لاکھ روپے سالانہ سے زیادہ نہ ہو وہاں 24 لاکھ روپے سے زائد رقم پر 22.5 فیصد انکم ٹیکس جبکہ 1 لاکھ 65 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔
جہاں قابلِ ٹیکس آمدنی 36 لاکھ روپے سالانہ سے زیادہ ہو لیکن 60 لاکھ روپے سالانہ سے زیادہ نہ ہو، وہاں پر انکم ٹیکس کی شرح 4 لاکھ 5 ہزار روپے پلس 36 لاکھ روپے سے زیادہ رقم کا 27.5 فیصد ہو گی۔
جہاں قابلِ ٹیکس آمدنی 60 لاکھ روپے سالانہ سے زیادہ ہو گی، وہاں ٹیکس کی شرح 10 لاکھ 95 ہزار روپے پلس 60 لاکھ روپے سے زیادہ رقم کا 35 فیصد ہو گی۔
آپ جاننا چاہتے ہیں کہ نئی ترمیم کے بعد آپ کی تنخواہ پر کتنا ماہانہ اور کتنا سالانہ انکم ٹیکس کٹے گا تو ہمارے انکم ٹیکس کیلکولیٹر پر اپنی ماہانہ تنخواہ درج کر کے یہ فوری معلوم کر سکتے ہیں:…..
Comments are closed.