انڈین وزیر خارجہ جے شنکر کی ملک میں مقبولیت کی وجہ کیا ہے؟
انڈیا کا ماننا ہے کہ یوکرین کی جنگ نے دنیا کو مزید تقسیم کر دیا ہے اور مغربی ممالک کے ذریعے بنائے گئے ورلڈ آرڈر میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ لیکن امریکہ جیسے طاقتور ملک کو یہ سچ کون بتا سکتا ہے۔
چین یہ بات کھلے عام کہتا رہا ہے اور خود کو ترقی پذیر ممالک کا لیڈر کہنے والے انڈیا نے بھی یہ ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے۔
آج انڈیا کے وزیر خارجہ ڈاکٹر سبرامنیم جے شنکر ایک ایسے شخص کے طور پر سامنے آئے ہیں، جو ترقی پذیر ممالک کی سوچ کو بغیر کسی جھجک کے واضح الفاظ میں بیان کر رہے ہیں۔ انڈیا کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ جے شنکر یہ کام اچھی طرح کر رہے ہیں۔ انڈیا پر اس کے طاقتور مغربی پارٹنر ممالک کی طرف سے روس کے ساتھ تعلقات توڑنے اور مغربی کیمپ میں شامل ہونے کا بہت زیادہ دباؤ ہے، لیکن انڈیا نے ایسا نہیں کیا۔
انڈیا نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اس جنگ میں ’کسی فریق کی حمایت‘ نہیں کرے گا۔ جے شنکر اس نئے اعتماد کا سب سے بڑا چہرہ ہے جو انڈیا نے دنیا کے دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے دکھایا ہے۔
انڈیا میں وزیر خارجہ جے شنکر کی بڑھتی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ وہ امریکہ اور یورپی یونین جیسی دنیا کی بڑی طاقتوں کے سامنے کھڑے ہیں۔ جے شنکر کے بیانات بے خوف، بے باک اور کچھ لوگوں کی نظروں میں سخت ہیں۔
حالیہ برسوں میں جمہوریت کی درجہ بندی کرنے والے مغربی ممالک کے بڑے ادارے انڈیا میں جمہوریت کے زوال اور اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ان خدشات پر جے شنکر کا موقف بہت جارحانہ رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ منافقت ہے، دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنھوں نے ایسے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے لیے خود کو ٹھیکیدار بنا رکھا ہے، وہ یہ بات ہضم نہیں کر پا رہے کہ انڈیا اب ان کی رضامندی کا طالب نہیں ہے۔‘
جے شنکر کے اس بیان میں صرف ایک ہی چونکا دینے والی بات تھی۔ ان کا یہ سخت بیان روائتی سفارتی زبان کے انداز میں نہیں دیا گیا تھا۔
ظاہر ہے، جے شنکر جانتے ہیں کہ انڈیا کے عام لوگ بھی اپنے ملک پر ہونے والی تنقید کا اسی زبان میں جواب دیں گے۔ اس طرح کے بیانات نے جے شنکر کو عام شہریوں اور خاص طور پر قوم پرستوں کی نظروں میں ہیرو بنا دیا ہے۔
اس سال جنوری میں جے شنکر نے اس وقت سخت جواب دیا جب مغربی میڈیا نے بی جے پی کی حکومت کو ’ہندو قوم پرست حکومت‘ کہا۔ جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ غیر ملکی اخبارات پڑھتے ہیں تو وہ ہندو قوم پرست حکومت جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ وہ امریکہ یا یورپ میں عیسائی قوم پرست نہیں کہتے۔ وہ ایسے جملے خاص طور پر ہمارے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘
سیاسی اور خارجہ امور کے ماہر ڈاکٹر سوروکمل دتہ کا کہنا ہے کہ وہ مغربی ممالک کے خلاف جے شنکر کے جارحانہ رویہ کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سووروکمل کہتے ہیں، ’جب دنیا کے ممالک اور خاص طور پر مغربی ممالک کے ساتھ معاملہ کرنے کی بات آتی ہے، تو جے شنکر کی نظر میں انڈیا کے مفادات سب سے زیادہ ہیں۔‘
تاہم ’مودیز انڈیا: ہندو نیشنلزم اینڈ دی رائز آف ایتھنک ڈیموکریسی‘ کے مصنف اور لندن کے کنگز کالج کے پروفیسر، کرسٹوف جعفرلو دلیل دیتے ہیں کہ ’جے شنکر کا انداز ایک پاپولسٹ قوم پرست جیسا ہے۔ اور وہ یہ کام اپنے ملک کے لوگوں کے دل جیتنے کے لیے کرتے ہیں۔‘
کرسٹوف جعفرلو کہتے ہیں کہ ’جے شنکر جس طرح سے مغربی ممالک کے بارے میں بات کرتے ہیں اس کا اصل مقصد ملکی کی داخلی سطح پر اثر چھوڑنا ہے۔ یہ ان کے جارحانہ رویہ کی بنیادی وجہ ہے۔ لیکن، یہ رویہ نیا نہیں ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’آج دنیا کے بہت سے قوم پرست رہنما ایک ہی زبان میں بات کرتے ہیں۔ ترکی کے صدر اردوغان بھی اسی طرح بات کرتے ہیں۔ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان بھی اسی طرح کے جملے استعمال کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اپنے ملک کے لوگوں کو بہلانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ عام لوگوں کو طنزیہ اور فحش زبان پسند ہے۔‘
لندن میں یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر میں سینٹر فار دی سٹڈی آف ڈیموکریسی کی ڈائریکٹر پروفیسر نتاشا کول کہتی ہیں، ’جے شنکر بہت احتیاط اور چالاکی سے ریورس انجینئرنگ کو انڈیا اور مغرب کے درمیان ثالث کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔‘
’وہ ایسے دلائل استعمال کرتے ہیں، جو بنیادی طور پر ترقی پسند معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن، وہ پرانے زمانے اور دیسی رویہ کو درست ثابت کرنے کے لیے وہی دلائل استعمال کرتے ہیں۔‘
نتاشا کول کہتی ہیں کہ مغرب میں بہت سے لوگ ہیں جو مغربی نوآبادیاتی تاریخ پر جے شنکر کی تنقید کی حمایت کریں گے۔ لیکن وہ اپنے ملک کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے بھی وہی دلیلیں استعمال کرتے ہیں، جو مغربی ممالک کی پرانی بداعمالیوں پر تنقید کرتے ہیں۔
دوست اور دشمن ملک کو کیسے دیکھتے ہیں؟
پروفیسر ہوانگ یونسونگ چین کے شہر چینگڈو میں واقع سچوان یونیورسٹی کے سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ ڈین ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جے شنکر چین میں انڈیا کے سب سے طویل عرصے تک رہنے والے سفیر تھے۔
پروفیسر ہوانگ کہتے ہیں کہ ’چین کے فکری اور تزویراتی حلقوں میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو جے شنکر سے واقف نہیں ہیں۔ وہ جے شنکر کو ایک حقیقت پسند سیاست دان کے طور پر عزت دیتے ہیں جو سخت، چالاک اور دلیر ہے۔‘
’وہ اپنی سفارتی مہارت میں بھی پرسکون اور تیز دماغ ہے۔ ان کا ذہن ہمیشہ اس بات پر چوکنا رہتا ہے کہ انڈیا کی سٹریٹجک خود مختاری کو کیسے برقرار رکھا جائے۔‘
پروفیسر نتاشا کول کا کہنا ہے کہ ’یقینی طور پر ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ مغربی ممالک جمہوریت کے فروغ کے نام پر انسانی حقوق کے نام پر دوسرے ممالک میں مداخلت سے لے کر منافقانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔‘
لیکن وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ مغربی ممالک کے تئیں جے شنکر کے بیانات اور جملے، ’دراصل چالاکیاں اخلاقیات کے بھیس میں ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں، ’میں نے جو کام کیا ہے، اس میں اسے استعمار کے زخموں کو مغرب کے خلاف اخلاقی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے طریقے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ یہ مقامی جارحیت اور تکبر کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔‘
’میں سمجھتی ہوں کہ آج جے شنکر جو کچھ کر رہے ہیں، اور انڈیا کی خارجہ پالیسی کا موجودہ نظریہ، جے شنکر جیسے چہروں کی مدد سے مغربی ممالک کو ان کی تاریخ اور انسانیت کا حوالہ دے کر کٹہرے میں کھڑا کرنا ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ ہے۔ اس کی ایک مثال۔‘
پروفیسر نتاشا کول کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک عام طور پر جے شنکر کی ان سخت تقریروں سے واقف ہیں۔ لیکن جب وہ اس کا موازنہ اپنے اہم چیلنج چین سے کرتے ہیں تو وہ جے شنکر کے بیانات کو کم برا سمجھتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ’جے شنکر کی شرط کارآمد ہے کیونکہ، صاف کہوں تو، چین اس میں انڈیا کا سب سے بڑا شراکت دار ہے۔ مغربی ماہرین جو جے شنکر کے ان بیانات کے پیچھے حقیقت جانتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ چین کے مقابلے میں انڈیا ان کے لیے زیادہ خطرہ نہیں ہے۔‘
دوسری طرف، پروفیسر کرسٹوف جعفرلو کا خیال ہے کہ جے شنکر کے بے باک بیانات اور تقریروں کی جڑ ان کے اس یقین میں پنہاں ہے کہ مغربی ممالک کے زیر تسلط عالمی نظام بدل رہا ہے۔
جے شنکر نے اپنی کتاب ’دی انڈیا وے: سٹریٹیجیز فار این انسرٹین ورلڈ‘ (2020) میں بارہا اس کا حوالہ دیا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ ’آج ایسی تبدیلی ہمارے سامنے آرہی ہے جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی‘۔
پروفیسر جعفریلو کا استدلال ہے، ’یہ دنیا میں طاقت کے محور میں تبدیلی کا اشارہ ہے۔ آج، ابھرتے ہوئے ممالک حقیقت کو بیان کرنے کی ہمت کر سکتے ہیں۔ مغربی ممالک دکھاوا کرتے ہیں۔ اگر آپ خود غیر اخلاقی کام کرتے ہیں، تو آپ دوسروں کو اخلاقیات کا درس نہیں دے سکتے‘
جے شنکر کی ترقی
انڈین وزیر اعظم مودی کی کابینہ میں جے شنکر کے ستارے عروج پر ہیں۔ خاص طور پر جئے شنکر نے جس طرح یوکرین جنگ اور روس سے تیل خریدنے کے معاملات کو سنبھالا ہے، اس سے ان کی شہرت میں اضافہ ہوا ہے۔
جے شنکر کے حامیوں کا خیال ہے کہ وہ مودی کی کابینہ میں سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے وزراء میں سے ایک ہیں۔
ڈاکٹر سووروکمل دتہ کہتے ہیں کہ ’ایک وزیر خارجہ کے طور پر میں انھیں آنجہانی سشما سوراج کی سطح پر رکھتا ہوں۔ میرے لیے ایک وزیر خارجہ کے طور پر ڈاکٹر ایس جے شنکر کی کامیابیاں پنڈت جواہر لال نہرو سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔‘
یہ یقیناً ایک بڑا دعویٰ ہے۔ لیکن جے شنکر کا انڈیا کا وزیر خارجہ بننے تک کا سفر یقیناً ایک پیشہ ور سفارت کار کی کامیابی کی ایک قابل ذکر مثال ہے۔
جے شنکر1955 میں دہلی میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق سرکاری افسران کے ایک معزز خاندان سے ہے۔ ان کے والد کے سبرامنیم ایک معروف بیوروکریٹ تھے۔
جے شنکر نے دہلی کی مشہور جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔‘ اس وقت کے ان کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ وہ ایک کھلے ذہن کے لبرل شخص ہیں، جو مغربی جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔
جے شنکر نے 1977 میں سفارت کار کے طور پر اپنا سفر شروع کیا اور کئی ممالک میں بطور سفارت کار خدمات انجام دیں۔
وہ سنہ 2013 سے 2015 تک امریکہ میں انڈیا کے سفیر کے طور پر رہے، جے شنکر نے امریکہ کے ساتھ انڈیا کے اقتصادی تعلقات کو وسعت دی اور امریکی پالیسی سازوں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے۔ انھوں نے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط سٹریٹجک شراکت داری کو فروغ دینے میں بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔
تاہم خارجہ پالیسی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ درحقیقت ان کے نظریاتی سفر میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب وہ 2009 سے 2013 کے درمیان چین میں انڈیا کے سفیر رہے۔
دریں اثنا، 2011 میں، انھوں نے پہلی بار نریندر مودی سے ملاقات کی، جو اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر چین کے دورے پر تھے.
خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں جے شنکر نے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’میں ان سے (نریندر مودی) سے پہلی بار 2011 میں چین میں ملا تھا۔ وہ گجرات کے وزیر اعلی کے طور پر چین کے دورے پر آئے تھے اور مجھ پر گہرا اثر چھوڑا۔‘
’سنہ 2011 تک، میں نے کئی وزرائے اعلیٰ کو ایسے دوروں پر آتے دیکھا تھا۔ لیکن میں نے کبھی کسی کو اتنی زبردست تیاری کے ساتھ آتے نہیں دیکھا۔‘
جے شنکر کا نظریاتی سفر
سنہ 2014 میں جب نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم بنے تو جے شنکر کو امریکہ میں انڈین سفیر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا یہ جے شنکر کے خیالات میں تبدیلی کا نتیجہ تھا یا نہیں، لیکن جب نریندر مودی نے ستمبر 2014 میں وزیر اعظم کے طور پر پہلی بار امریکہ کا دورہ کیا تو جے شنکر نے اپنے بہترین تعلقات کا مظاہرہ کیا۔
سفیر کی حیثیت سے جے شنکر نے نریندر مودی کے پہلے دورہ امریکہ کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔ نیویارک کے میڈیسن سکوائر گارڈن میں ’ہاؤڈی مودی‘ کا اہتمام کیا گیا جس کا خوب چرچا ہوا۔
جے شنکر نے خود پچھلے سال ایک پروگرام میں کہا تھا، ’میں میڈیسن سکوائر پروگرام کے دوران امریکہ میں انڈیا کا سفیر تھا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ پروگرام ایک تاریخی واقعہ تھا۔‘
جب نریندر مودی نے انھیں خارجہ سیکرٹری (2015-2018) کے طور پر مقرر کیا، تو انھوں نے انڈیا کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ خاص طور پر ‘قواعد پر مبنی ورلڈ آرڈر’ کے بارے میں انڈیا کے نظریہ کو تشکیل دینے میں ان کا اہم کردار تھا۔
جے شنکر کا کہنا ہے کہ خارجہ سیکریٹری کی حیثیت سے وہ نریندر مودی کے ساتھ کئی غیر ملکی دوروں پر گئے۔ تاہم جے شنکر کے خلاف یہ الزامات تھے کہ انھوں نے غیر ملکی سروس افسر کے دائرہ کار میں رہنے کے بجائے اپنے سیاسی آقا کی بہت زیادہ خدمت کی۔
جب وزیر اعظم مودی نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کے بعد جے شنکر کو وزیر خارجہ مقرر کیا تو وہ خارجہ سکریٹری کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنی نئی زندگی کی تیاری کر رہے تھے۔
خارجہ پالیسی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ریٹائرڈ سیکرٹری خارجہ کو براہ راست کابینہ کا وزیر بنانا ایک بے مثال فیصلہ تھا۔
اے این آئی کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں جے شنکر نے اعتراف کیا تھا کہ انھیں اس کی کوئی توقع نہیں تھی۔ ایک انٹرویو میں جے شنکر نے کہا کہ انھوں نے پیشکش قبول کرنے سے پہلے ایک ماہ تک سوچا۔ اور بالآخر وزیر خارجہ بننے سے پہلے انھوں نے حکمران جماعت بھارتیا جنتا پارٹی کی باقاعدہ رکنیت لے لی۔
جب انھوں نے وزیر خارجہ کے طور پر حلف لیا تو ایک بڑے اخبار نے سرخی لگائی، ’مودی کے ٹربل شوٹر نے کابینہ کے وزیر کے طور پر حلف اٹھایا۔‘ یہ کہنا بجا ہوگا کہ مودی کے ساتھ ان کی وفاداری کا بھرپور صلہ ملا۔ چار سال کے بعد وہ مودی کابینہ کے روشن ترین چہروں میں سے ایک کے طور پر ابھرے ہیں۔
ان کے مخالفین کا خیال ہے کہ جے شنکر، جو کبھی آزاد خیال تھے نے اپنے خیالات بدل لیے ہیں۔
جے شنکر کتنے کامیاب ؟
بیرون ملک انڈیا کے دوستوں اور دشمنوں سے نمٹنے کا طویل تجربہ رکھنے والے ایک سینئر سیاستدان کا ماننا ہے کہ انڈیا کا اثر و رسوخ محدود ہوگیا ہے۔
وہ کہتے ہیں، ’اگر آپ سعودی عرب سے چین تک ایک لمبی لکیر کھینچتے ہیں، تو اس کے مغرب کی ہر چیز اب چین، روس، سعودی عرب اور ایران کے محور کے کیمپ میں ہے۔ ہم کنارے پر کھڑے ہیں، اور دوسرے درجے کے کھلاڑی ہیں۔ ہم نے اتنی زبردست کمی کبھی نہیں دیکھی جو مودی نے اپنی پہلی مدت میں حاصل کی تھی۔‘
چین کے مقابلے میں بھی انڈیا دنیا میں پیچھے ہے۔ حال ہی میں جب سعودی عرب اور ایران نے سفارتی تعلقات بحال کیے تو چین نے ثالث کا کردار ادا کیا جب کہ سعودی عرب اور ایران دونوں کو انڈیا کے قریب سمجھا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جے شنکر سے زیادہ چین کو سمجھنے والا کوئی دوسرا پیشہ ور سفارت کار نہیں ہے۔ اسی طرح مودی جیسا کوئی دوسرا سیاستدان نہیں جو نو بار چین کا دورہ کر چکا ہو۔ چار بار گجرات کے وزیر اعلیٰ اور پانچ بار انڈیا کے وزیر اعظم کے طور پر۔
ان دونوں سے یہ توقع تھی کہ وہ چین اور انڈیا کے تعلقات میں کشیدگی کو کم کریں گے۔ لیکن لگتا ہے کہ اس تعلقات میں کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے اور امن معاہدے کی امید بھی فی الحال نظر نہیں آ رہی۔
Comments are closed.