- مصنف, نیاز فاروقی
- عہدہ, بی بی سی نیوز، دہلی
- 41 منٹ قبل
پچھلے مہینے ایلن کونیَاک اس وقت حیران رہ گئیں جب انھیں معلوم ہوا کہ انڈیا کی شمال مشرقی ریاست ناگالینڈ سے تعلق رکھنے والی 19ویں صدی کی ایک انسانی کھوپڑی برطانیہ میں نیلامی کے لیے پیش کی گئی ہے۔یہ کھوپڑی جو ناگا قبیلے کے ایک فرد کی تھی، ان ہزاروں اشیا میں شامل تھی جو یورپی نوآبادیاتی منتظمین نے ناگالینڈ سے جمع کی تھیں۔کونیَاک، جو ناگا فورم فار ریکنسیلیشن (NFR) کی رکن ہیں اور ان انسانی باقیات کو واپس وطن لانے کی کوششیں کر رہی ہیں، کہتی ہیں کہ نیلامی کی خبر نے انھیں بے حد متاثر کیا۔’یہ دیکھ کر کہ 21ویں صدی میں بھی ہمارے آباؤ اجداد کی انسانی باقیات نیلام کی جا رہی ہیں، واقعی حیران کن تھا۔ یہ عمل انتہائی بے حسی اور گہرے دکھ کا باعث تھا۔‘
برطانیہ کے نوادرات کے مرکز، دی سوان ایٹ ٹیٹسورتھ نے اس انسانی کھوپڑی کو اپنی ’کیوریئس کلیکٹر سیل‘ کا حصہ قرار دیتے ہوئے نیلامی کے لیے پیش کیا تھا، جس کی قیمت 3,500 سے 4,000 برطانوی پونڈ کے درمیان رکھی گئی تھی۔ یہ کھوپڑی جو ایک بیلجئین کولیکٹر کی ہے۔ اس کو جِوارو قوم کے سکڑے ہوئے انسانی سروں اور مغربی افریقہ کے ایکوئی قبیلے کی کھوپڑیوں کے ساتھ نیلامی کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ناگا ماہرین اور سکالرز نے اس نیلامی کے خلاف احتجاج کیا۔ ناگالینڈ کے وزیر اعلیٰ نے انڈیا کی وزارت خارجہ کو ایک خط لکھ کر اس اقدام کو ’غیر انسانی‘ اور ’ہماری قوم پر جاری نوآبادیاتی تشدد‘ قرار دیا۔احتجاج کے بعد نیلام گھر نے اس انسانی کھوپڑی کی فروخت منسوخ کر دی لیکن ناگالینڈ کی عوام کے لیے یہ واقعہ ان کے پُرتشدد ماضی کی یادیں تازہ کر گیا اور ان کی آبائی باقیات کو وطن واپس لانے کے مطالبے کو ایک بار پھر تقویت دی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ان باقیات میں سے کچھ اشیا تجارت یا تحفے کے طور پر دی گئی ہوں گی، لیکن دیگر کو شاید ان کے مالکان کی مرضی کے بغیر لے جایا گیا تھا۔،تصویر کا ذریعہAlok Kumar Kanungo
،تصویر کا ذریعہArkotong Longkumer & Meren Imchen
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.