انڈیا کے ’پاکستان میں گھس کر مارنے‘ کے بیانات انتخابی نعرے یا ’موساد کی طرز‘ پر نئی حکمت عملی کی طرف اشارہ ہیں؟
- مصنف, سعد سہیل
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
- 7 منٹ قبل
برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ انڈیا ’غیر ملکی سرزمین پر رہنے والے ریاست مخالف عناصر‘ کو ختم کرنے کی ایک وسیع حکمت عملی پر عمل کر رہا ہے اور اس ضمن میں اس نے سنہ 2020 سے اب تک پاکستان میں بھی متعدد کارروائیاں کی ہیں۔برطانوی اخبار دی گارڈین کی حالیہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 1999 میں انڈین ایئر لائنز کی پرواز 814 کی ہائی جیکنگ میں مبینہ طور پر ملوث زاہد اخوند عرف ظہور مستری کی پاکستان میں نقل و حرکت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے مبینہ طور پر انڈین خفیہ ادارے ’را‘ کی ایک اہلکار نے خود کو نیو یارک پوسٹ کا رپورٹر ظاہر کیا۔دی گارڈین کی اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انڈیا نے زاہد اخوند سمیت تقریباً 20 افراد کو پاکستانی سر زمین پر نشانہ بنایا۔ انڈیا کی وزارت خارجہ نے گارڈین کی اس رپورٹ کو ’جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا‘ قرار دیا۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی رپورٹ سے متعلق جب انڈیا کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ سے پوچھا گیا تو انھوں نےاس بات کی تصدیق یا تردید تو نہیں کی مگر یہ ضرور کہا کہ ’اگر کسی پڑوسی ملک سے کوئی دہشت گرد انڈیا کو پریشان کرنے یا یہاں دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے مناسب جواب دیا جائے گا۔‘
انڈین ٹی وی نیوز نیٹ ورک 18 کو انٹرویو دیتے ہوئے انڈین وزیر دفاع نے کہا کہ ’اگر کوئی دہشت گرد یہاں کارروائی کرنے کے بعد بھاگ کر پاکستان جائے گا تو اسے ’پاکستان میں گھس کر ماریں گے۔‘پاکستانی دفترِ خارجہ نے اس بیان پر فوری ردعمل دیتے ہوئے اسے نہ صرف ’اشتعال انگیز‘ قرار دیا بلکہ اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کسی بھی جارحیت کے خلاف اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے اپنے ارادے اور صلاحیت پر قائم ہے۔‘جوہری ہتھیاروں کے حامل دونوں پڑوسیوں کے درمیان گذشتہ سات دہائیوں سے یہ لفظی گولہ باری چل رہی ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں لیکن پاکستانی دفتر خارجہ سمیت کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ماضی کی طرح انڈیا میں عام انتخابات 2024 سے قبل اس طرح کے بیانات سے ’انتخابی فائدہ‘ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔واضح رہے کہ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی، دو ہفتوں میں شروع ہونے والے انتخابات میں وزیر اعظم کے طور پر تیسری مدت کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں۔انھوں نے جمعرات کو ایک انتخابی مہم میں دوران تقریر بیرون ملک اس قسم کی کارروائیوں کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ’آج کا ہندوستان حملہ کرنے کے لیے دشمن کے علاقے میں جاتا ہے۔‘لیکن انڈیا کی اس قسم کی مبینہ کارروائیوں کا ہدف صرف پاکستان ہی نہیں۔ گذشتہ برس جون میں خالصتانی تحریک کے سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا کے شہر سرے کے ایک گردوارے کے باہر دو نقاب پوش افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔اس کے بعد کینیڈا اور انڈیا کے سفارتی تعلقات میں اس وقت تلخی آ گئی تھی جب کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اعلان کیا تھا کہ انھیں تشویش ہے کہ انڈیا کی ریاست پنجاب سے تعلق رکھنے والے کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں انڈین حکومت کا ممکنہ کردار ہے۔ واضح رہے کہ انڈیا نے اس الزام کی سختی سے تردید کی تھی۔اس صورتحال کے بعد اس سوال نے جنم لیا ہے کہ کیا انڈیا کی جانب سے ’پاکستان میں گھس کر مارنے‘ جیسے بیانات محض انتخابات سے پہلے کی گرما گرمی ہے یا بیرون ممالک ٹارگٹ کلنگ کی متعدد کارروائیوں کے الزامات سامنے آنا ’موساد کے طرز‘ پر کسی نئی حکمت عملی کی طرف اشارہ کرتے ہیں؟،تصویر کا ذریعہSIKH PA
کیا بیرون ملک کارروائیاں انڈیا کی نئی حکمت عملی ہے؟
مودی حکومت کے 2014 میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے شدت پسندوں کی جانب سے متعدد حملے کیے گئے جن میں اوڑی، پٹھان کوٹ اور گرداسپور شامل ہیں۔لیکن 14 فروری 2019 کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں ہونے والے حملے کو سب سے بڑا حملہ قرار دیا گیا تھا جس میں کم ازکم 40 پیرا ملٹری پولیس اہلکاروں کی ہلاکت ہوئی تھی۔یاد رہے کہ اسی حملے کے بعد انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ پاکستان انڈیا کو تباہ کرنے کا خواب دیکھنا چھوڑ دے۔ نریندر مودی نے حملہ آوروں کے خلاف بھرپور کارروائی کا بھی اعادہ کیا تھا۔گارڈین کی رپورٹ کے مطابق انڈین خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے دعویٰ کیا کہ یہی وہ وقت تھا جب انڈیا نے دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کے لیے مبینہ طور پر نئی حکمت عملی پر غور کرنا شروع کیا۔اس متعلق سکیورٹی امور پر رپورٹنگ کرنے والے انڈین صحافی راہُل بیدی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس قسم کی پالیسی کو باضابطہ سرکاری طور پر تو کوئی تسلیم نہیں کرے گا مگر لگتا یہی ہے کہ مودی سرکار نے ’مسکُلر نیشنلزم‘ کی پالیسی اپنا لی ہے۔‘اس پالیسی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے راہل بیدی کا کہنا تھا کہ جنھیں انڈیا دہشتگرد یا ریاست مخالف سمجھتا ہے ان کو ’کسی تیسرے فریق کے ذریعے یا پیسے دے کر قتل کروایا گیا۔‘بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی بھی متفق ہیں کہ انڈیا کی جانب سے ریاست مخالف قرار دیے جانے والے عناصر کے خلاف کارروائیوں کی حکمت عملی میں تبدیلی آئی مگر اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا کو لگتا ہے کہ اس کا عالمی قد اتنا بڑھ گیا ہے یا وہ اب اُس لیگ میں ہے جہاں وہ شاید امریکہ یا اسرائیل کی طرح اپنے مخالفین کے خلاف ایک جارحانہ پالیسی باآسانی لاگو کر سکتا ہے۔‘ڈاکٹر ہما بقائی کا ماننا ہے کہ 2018 میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد انڈیا کو لگا ہوگا کہ وہ بھی اپنے مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے اب کہیں بھی اُن کا پیچھا کر سکتا ہے۔راہل بیدی کے مطابق انڈیا کے انٹیلیجنس ادارے ’را‘ کے سربراہ سمنت کمار گوئل کی 2019 سے 2023 تک تعیناتی بھی اس ’پالیسی کے تسلسل کی عکاس ہے۔‘واضح رہے کہ 1986 کے بعد سمنت کمار گوئل ’را‘ کے پہلے سربراہ تھے جو چار سال تک اس عہدے پر فائز رہے اور مودی سرکار نے انھیں دو مرتبہ ایکسٹینشن بھی دی۔یاد رہے کہ بطور ’را‘ چیف سمنت گوئل کے دور میں ہی 18 جون 2023 کو انڈین نژاد کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجر کا کینیڈا میں دو نامعلوم نقاب پوش افراد نے قتل کیا تھا۔پاکستان کی سکیورٹی صورتحال اور خارجہ امور پر گہری نظر رکھنے والے سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے گارڈین میں شائع ہونے والی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر کڑیاں ملائی جائیں تو کینیڈا اور امریکہ میں بھی یہی کام ہوا اور یہ مودی حکومت کی وسیع حکمت عملی کا حصہ ہے ۔‘ان کا اشارہ نومبر 2023 کا وہ واقعہ ہے جب امریکہ نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے نیویارک میں سکھ علیحدگی پسند ریاست کا پرچار کرنے والے ایک امریکی شہری کو قتل کرنے کی مبینہ سازش ناکام بنا دی۔سکیورٹی امور کے ماہر سید محمد علی کا کہنا ہے کہ ’انڈیا کی پالیسی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انڈین انٹیلیجنس سروسز کو قومی قیادت کی سیاسی حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے۔ کوئی بھی خفیہ ایجنسی اعلیٰ قومی قیادت کی مخصوص منظوری اور حمایت کے بغیر امریکہ جیسے اپنے بڑے سٹریٹجک پارٹنر کی سرزمین کے اندر ایسے ہائی رسک آپریشن نہیں کر سکتی۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ انڈیا کو امریکہ اور کینیڈا سے ویسی ہی توقعات ہیں جیسے ایک وقت میں اسرائیل کو جرمنی سے تھیں ’لیکن میرے خیال سے امریکہ اور کینیڈا انڈیا سے جواب طلب کریں گے اور مستقبل میں سیکورٹی تعاون کا جائزہ بھی لیں گے۔‘اس کے برعکس انڈین فوج کے سابق افسر اور دفاع کے معاملات پر مختلف کتابوں کے مصنف پروین سوہنے نے انڈیا کی جانب سے حالیہ بیانات کو بنیادی طور پر آئندہ ہونے والے انتخابات سے جوڑا۔پروین سوہنے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انڈیا کا دفاع مضبوط ہے اس لیے یہ ایک بیانیہ بنایا جا رہا ہے جس سے انتخابی فائدہ ملے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
انڈیا کی پاکستان سے متعلق پالیسی واضح مگر ’پاکستانی پالیسی‘ کیا ہے؟
انڈیا اور پاکستان کے تعلقات عرصہ دراز سے کشیدہ ہیں اور سکیورٹی امور کے ماہرین کا ماننا ہے کہ اوڑی، پٹھان کوٹ اور بالخصوص پلوامہ حملے کے بعد انڈیا کی پاکستان مخالف حکمت عملی میں مزید شدت آئی ہے۔انڈین چیف آف ڈیفنس سٹاف سے منسوب ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے سابق انڈین فوج کے افسر پروین سوہنے نے کہا کہ ’انڈین پالیسی واضح ہے۔ انڈیا جانتا ہے کہ پاکستان سیاسی اور معاشی طور پر کمزور ہے مگر وہ اب بھی پاکستانی فوج کو ایک خطرہ سمجھتا ہے۔‘کیا پاکستان اس حالیہ لفظی گولہ باری سے کوئی خطرہ محسوس کرتا ہے؟ اس بارے میں سید مشاہد حسین کہتے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان کے خلاف براہ راست فوجی کارروائی یا روایتی آپریشن کوئی حقیقت پسندانہ آپشن نہیں۔پاکستان کی انڈیا سے متعلق حکمت عملی کے سوال پر سید مشاہد حسین نے حکومت کی جانب سے انڈیا کے ساتھ تجارت کھولنے کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’بہت دکُھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی حکمت عملی واضح نہیں۔‘مشاہد حسین نے گارڈین اخبار میں مبینہ 20 ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے انٹیلیجنس اداروں کو بھی اس کی تفتیش کرنی چاہیے کہ کیسے 2020 کے بعد سے 20 مرتبہ وہ کامیاب رہے اور ہم انھیں روک بھی نہیں پائے، پاکستان میں مقیم لوگوں کا دفاع بھی نہیں کر پائے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ اس معاملے کو فی الفور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں اٹھایا جائے اور اس پر وزارت خارجہ کی بجائے وزیر اعظم کی جانب سے پالیسی بیان سامنے آنا چاہیے۔بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی بھی اس بات سے متفق ہیں کہ ’پاکستان کی کوئی سٹریٹیجی نہیں۔ پاکستان معاشی طور پر بدحال ہے اور اس کی حکمت عملی سنگین ابہام کا شکار ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان سفارتی محاز پر تنہائی کا شکار ہے اور وہ نہیں جانتا کہ وہ کس ’کیمپ‘ میں ہے یا آیا اس نے کیمپ کی سیاست کرنی بھی ہے کہ نہیں اور کیا ملک کی بقا کی خاطر کسی کیمپ میں جانا ضروری ہے۔انڈیا کی جانب سے درپیش خطرے سے قطع نظر ہما بقائی کا ماننا ہے کہ پاکستان کے پاس تمام مسائل کا فی الحال کوئی جواب نہیں اور نہ ہی وہ لوگ موجود ہیں جو یہ جوابات تلاش کر سکیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.