انڈیا کے سرحدی گاؤں میں میانمار کی طرف سے بم گرائے جانے کے دعوے، حکام کی تردید
- مصنف, نیاز فاروقی
- عہدہ, بی بی سی اردو، دہلی
-
انڈیا اور میانمار کی سرحد پر موجود گاؤں
انڈین فوج کے نیم فوجی دستے آسام رائفلز نے میانمار کی جانب سے انڈین حدود میں بم گرنے کی تردید کی ہے۔ مقامی حکام نے بھی بم گرنے کی تردید کی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ تصدیق کے بعد ہی بیان جاری کریں گے۔
مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ چن باغیوں کے کیمپوں پر میانمار کی فوج کے فضائی حملے کے دوران انڈیا کی طرف میزورم کے چمپئی ضلع میں بم گرا ہے۔
ان دعووں کے حوالے سے انڈین میڈیا میں چلنے والی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ میانمار کی فوج نے منگل کو سرحد کے قریب باغیوں کے کیمپوں کے خلاف فضائی کارروائی کی جس دوران سرحد پار انڈیا کی ریاست میزورم کے ایک گاؤں میں بھی بم گرا۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق آسام رائفلز کے ایک سینئر افسر نے اس بات کی تصدیق کی کہ پڑوسی ملک میانمار میں بین الاقوامی سرحد پر کئی دھماکے ہوئے۔
انڈین فوج کے نیم فوجی دستے آسام رائفلز شمال مشرقی انڈیا میں سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ دار ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان تقریباً 510 کلومیڑ طویل سرحد ہے اور انڈیا سے ملحق میانمار کی ریاست میں جمہوریت نواز چن باغیوں کے کیمپس ہیں۔
مبینہ طور پر انڈین جانب گرنے والے بم کے ٹکڑے
مقامی افراد کا دعویٰ
مقامی لوگوں نے میڈیا کو بتایا کہ میانمار کی فوج کی کارروائی کے نتیجے میں میں مبینہ طور پر کم از کم ایک بم انڈیا کی سرحد کے اندر گرا ہے جس میں انڈیا کی طرف کوئی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے لیکن سرحد کے ساتھ دریا کے قریب ایک ٹرک کو نقصان پہنچا ہے۔
ان فضائی حملوں کا ہدف چن باغی تھے جو زیادہ تر میانمار کی مغربی ریاست چن سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کی نسل کے لوگ انڈیا اور بنگلہ دیش میں بھی مقیم ہیں۔
بم گرنے کی تردید لیکن بیان تصدیق کے بعد
چمپئی میں حکام نے انڈیا کی جانب بم گرنے کی تردید تو کی ہے لیکن ساتھ ہی کہا ہے کہ اس بارے میں باقاعدہ بیان مکمل طور پر تصدیق کے بعد ہی دیا جائے گا۔
چمپائی کے ڈپٹی کمشنر جیمز لالچنا نے کہا ’ہم نے مقامی لوگوں کے دعوے کی تصدیق کے لیے ایک افسر کو بھیجا ہے۔ اس سلسلے میں جمعرات کی شام تک ایک سرکاری بیان جاری کیا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ تحقیقات کے بعد اعلیٰ حکام کو رپورٹ دی جائے گی۔
ریاست میزورم کے واحد رکن پارلیمنٹ سی لالروسنگا نے بتایا کہ وہ فی الحال ان رپورٹوں کی تصدیق نہیں کر سکتے۔
انھوں نے واقعے کے بعد کہا تھا کہ ’میں صرف ایک گھنٹہ پہلے ہی ریاستی حکومت کے وزیر داخلہ سے ملا تھا اور وہ مجھے اس بارے میں کوئی یقینی معلومات نہیں دے سکے‘۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم فی الحال یہ تصدیق نہیں کر سکتے کہ آیا میانمار طیارے نے انڈین فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے یا اس نے انڈیا کے علاقے میں کوئی بم یا میزائل فائر کیا ہے‘۔
ویڈیو دعویٰ
تاہم چن لوگوں کی حمایت اور ان کے مفادات کی وکالت کرنے والی ایک تنظیم ’چن ہیومن رائٹس آرگنائزیشن‘ نے حملے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو شیئر کرنے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس میں مبینہ طور پر انڈین سرحد کے اندر ’بم گرتے‘ دیکھا جا سکتا ہے۔
اس ویڈیو میں کہا گیا ہے کہ جنتا (برمی فوج) کے فضائی حملوں کی فوٹیج جو میزورم کے ایک مقامی شخص نے بنائی ہے، اس میں ایک بم کو سرحد کے پار انڈیا کی طرف گرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور وہ شخص کیمپ وکٹوریہ پر فضائی حملے پر تبصرہ کر رہا ہے۔
بی بی سی اس ویڈیو کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ انڈین جانب ایک ٹرک کوبھی نقصان پہنچا ہے
ریاست کی ’دی ینگ میزو ایسوسی ایشن‘، جو کہ میزو لوگوں کی وکالت کرتی ہے، کے ایک گروپ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ ہمیں یہ جان کر بہت صدمہ ہوا ہے کہ 10 جنوری 2023 کو دوپہر 3:30 بجے برما کے ملٹری جیٹ فائٹر کی طرف سے انڈین سرزمین پر بمباری ہوئی جب کہ ان جیٹ لڑاکا طیاروں نے ’چن نیشنل فرنٹ‘ کے ہیڈ کوارٹر کیمپ، وکٹوریہ، پر بم گرایا‘۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کارروائی کے نتیجے میں مبینہ طور پر انڈیا میں ایک گاڑی کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے جو ریت جمع کرنے کے لیے بین الاقوامی سرحد کے قریب دریا کے قریب تھی۔
یہ بھی پڑھیے
میزورم کے برمی پناہ گزین
انڈیا میں خاص طور پر میزورم میں فی الحال ہزاروں برمی پناہ گزیں مقیم ہیں جو فروری 2021 میں فوجی جنتا کے اقتدار میں آنے کے بعد پڑوسی ملک فرار ہوئے تھے۔
مارچ 2021 میں برما سے پولیس افسران کا ایک گروپ میزورم میں داخل ہوا تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ فوج کے حکم پر مظاہرین کو گولی مارنے سے انکار کرنے کے بعد انڈیا فرار ہو گئے تھے۔
لالروسنگا نے 2022 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ میانمار سے مہاجرین برمی فوج کی حکمرانی اور وہاں ہنگامہ آرائی کی وجہ سے میزورم آتے ہیں۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’چونکہ وہ (ہمارے) نسلی بھائی اور بہن ہیں، ہمیں انھیں قبول کرنا ہوگا، اور ہم انھیں پناہ اور خوراک فراہم کرتے ہیں، وہ تمام ضروریات، جو ہم فراہم کر سکتے ہیں۔‘
لالروسنگا نے مزید کہا ’میں کہوں گا کہ انڈین حکومت بھی بہت ہی مشکل پوزیشن میں ہے کیونکہ انھیں جغرافیائی سیاست کو دیکھنا ہے، انھیں دوسرے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو دیکھنا ہے اور اس لیے وہ اسے تبدیل نہیں کر سکتے ہیں‘۔
پناہ گزینوں کو انڈین حکومت سرکاری طور پر تسلیم نہیں کرتی ہے لیکن دونوں ممالک کے درمیان ایک باہمی معاہدہ انڈین اور برمی باشندوں کو سرحد پار کرنے اور 14 دن تک رہنے کی اجازت دیتا ہے۔
Comments are closed.