انڈیا کینیڈا سفارتی کشیدگی: امریکہ اور برطانیہ نے انڈیا کو کیا وارننگ دی؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل کے بعد انڈیا اور کینڈا میں پیدا ہونے والا سفارتی تنازع بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اب امریکہ اور برطانیہ نے بھی انڈیا کو اس ضمن میں تنبیہ کی ہے۔
امریکہ اور برطانیہ دونوں نے کہا ہے کہ انڈیا کو اس بات پر اصرار نہیں کرنا چاہیے کہ کینیڈا انڈیا میں اپنے سفارتکاروں کی تعداد کم کرے۔
کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹس ٹروڈو نے اس کے پیچھے انڈین خفیہ ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے شبے کا اظہار کیا تھا۔
اگرچہ انڈیا نے کسی بھی طرح اس معاملے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی تاہم کینڈین وزیراعظم کے اس بیان کے بعد انڈیا اور کینیڈا کے درمیان کشیدگی بڑھنے لگی اور رواں ہفتے معاملہ اس نہج پر پہنچ گیا کہ کینیڈا کو انڈیا میں تعینات اپنے 41 سفارتکاروں کو واپس بلانا پڑا۔
انڈین نژاد کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجر کو رواں سال جون میں کینیڈا کے شہر وینکوور میں قتل کر دیا گیا تھا۔
انڈیا نجر کو، جو کہ سکھوں کے لیے علیحدہ وطن یعنی خالصتان تحریک کا چہرہ تھے، ’دہشت گرد‘ قرار دیتا ہے۔ انڈیا نے جسٹن ٹروڈو کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کینیڈا سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کینیڈا میں خالصتان کی حامی سرگرمیاں بند کروائے۔
،تصویر کا ذریعہX
امریکہ اور برطانیہ نے کیا کہا؟
جمعہ کو امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا ہے کہ ’انڈین حکومت نے کینیڈا سے کہا تھا کہ وہ انڈیا میں اپنے سفارتکاروں کی موجودگی کو کم کرے، اس کی درخواست پر کینیڈا نے سفارتکاروں کو واپس بلا لیا ہے۔ ہمیں انڈیا سے کینیڈین سفارتکاروں کی واپسی پر تشویش ہے۔‘
امریکہ نے کہا کہ وہ کینیڈا کی طرف سے انڈیا پر لگائے گئے الزامات پر سنجیدہ ہے۔
وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’باہمی اختلافات کو دور کرنے کے لیے سفارتکاروں کا موجود رہنا انتہائی ضروری ہے۔ ہم نے انڈین حکومت سے کہا ہے کہ اسے اس خیال پر قائم نہیں رہنا چاہیے کہ کینیڈا کو انڈیا میں اپنے سفارتکاروں کی موجودگی کو کم کرنا چاہیے۔ انڈیا کو اس معاملے میں کینیڈا کی تحقیقات میں تعاون کرنا چاہیے۔‘
’ہمیں امید ہے کہ انڈیا سفارتی تعلقات پر 1961 کے ویانا کنونشن کی پاسداری کرے گا اور وہ سہولیات اور سفارتی استثنیٰ فراہم کرے گا جس کے کینیڈا کے سفارتی مشن کے ممبران حقدار ہیں۔‘
اس حوالے سے برطانیہ کی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے۔ برطانوی وزارت کا بیان کسی حد تک امریکی بیان سے ملتا جلتا ہے۔
برطانیہ نے کہا ہے کہ ’باہمی اختلافات کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے دارالحکومتوں میں سفارتکار موجود رہیں اور دونوں کے درمیان بات چیت جاری رہنی چاہیے۔‘
’ہم انڈین حکومت کے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے جس کی وجہ سے بہت سے کینیڈین سفارتکاروں کو انڈیا چھوڑنا پڑا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دونوں فریق 1961 کے ویانا کنونشن برائے سفارتی تعلقات کے تحت اپنے وعدوں کی پاسداری کریں گے۔‘
برطانیہ نے کہا ہے کہ ’ہم انڈیا کو ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی آزادانہ تحقیقات میں کینیڈا کے ساتھ رابطے میں رہنے کی ترغیب دیتے رہیں گے۔‘
،تصویر کا ذریعہx
’بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی‘
انڈیا کے اس قدم کے بعد وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے جمعہ کے روز انڈیا پر شدید تنقید کی۔ انھوں نے کہا کہ اس سے کینیڈا میں تعلیم حاصل کرنے والے انڈین طلبا کے لیے مسائل پیدا ہوں گے، اور انھیں سفر اور کاروبار سے متعلق معاملات میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایک ٹیلی ویژن پیغام میں انھوں نے کہا کہ ’انڈین حکومت نے کینیڈا اور انڈیا میں رہنے والے کروڑوں لوگوں کی زندگی کو غیر معمولی طور پر مشکل بنا دیا ہے۔‘
انھوں نے اسے سفارتکاری کے بنیادی اصولوں اور ویانا معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ ’انڈیا بین الاقوامی سفارتکاری کے انتہائی بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسا کر رہا ہے۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انھوں نے کہا کہ ’مجھے کینیڈا میں رہنے والے ان لاکھوں لوگوں کی خوشی اور بھلائی کی فکر ہے جن کی جڑیں برصغیر سے جڑی ہوئی ہیں۔‘
قبل ازیں جمعرات کو کینیڈا کی وزیر خارجہ میلونی جولی نے 41 کینیڈین سفارتکاروں کے انڈیا چھوڑنے کی اطلاع دی تھی۔
انھوں نے کہا تھا کہ انڈیا نے کہا تھا کہ 21 سفارتکاروں کے علاوہ باقی تمام سفارتکاروں کی سفارتی سکیورٹی 20 اکتوبر تک ختم کر دی جائے گی۔
21 سفارتکار اب بھی انڈیا میں ہیں۔ اس صورتحال کے باعث اب کینیڈا کو انڈیا میں اپنی خدمات کو محدود کرنا پڑے گا۔
انھوں نے بتایا کہ اس کی وجہ سے بنگلورو، ممبئی اور چندی گڑھ میں کچھ قونصل خانوں کا کام روکنا پڑے گا۔
اس کے جواب میں انڈین وزارت خارجہ نے جمعہ کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کسی بھی طرح ویانا کنونشن کی خلاف ورزی نہیں کر رہا ہے اور انڈیا میں کینیڈا کے سفارتکاروں کی تعداد ضرورت سے زیادہ ہے۔
انڈین وزارت خارجہ نے کہا کہ ’دو طرفہ تعلقات کے لحاظ سے، انڈیا میں کینیڈین سفارتکاروں کی تعداد اور ملک کے اندرونی معاملات میں ان کی مسلسل مداخلت کی وجہ سے انڈیا اور کینیڈا میں سفارتکاروں کی موجودگی میں برابری کا ہونا ضروری تھا۔‘
ویانا کنونشن کے آرٹیکل 11.1 کا حوالہ دیتے ہوئے وزارت خارجہ نے کہا کہ سفارتکاروں کی تعداد میں برابری کا یہ مطالبہ معاہدے کے مطابق ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
معاملہ کیا ہے؟
18 جون کوعلیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس قتل کے تین ماہ بعد 18 ستمبر کو کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں کہا کہ کینیڈین ایجنسیوں نے تصدیق کی ہے کہ کینیڈا کی سرزمین پر ایک کینیڈین شہری کے قتل کے پیچھے انڈین حکومت کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔
اس تقریر کے فوراً بعد کینیڈا نے انڈین کے اعلیٰ سفارتکار کو ملک بدر کر دیا جس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہونے لگے۔
جوابی کارروائی میں انڈیا نے بھی کینیڈا کے اعلیٰ سفارتکار کو پانچ دن کے اندر انڈیا چھوڑنے کا حکم دیا۔ اس کے علاوہ، کینیڈا میں انڈین سفارت خانے نے ویزا خدمات بند کر دیں۔
انڈیا نے کینیڈا کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس قتل کیس میں کینیڈا کے ساتھ اس معاملات کو دیکھنے کے لیے تیار ہے۔
دو ہفتے قبل، انڈیا نے سفارتکاروں کی تعداد میں برابری کا مطالبہ کرتے ہوئے کینیڈا سے کہا تھا کہ وہ دہلی میں اپنے ہائی کمیشن سے درجنوں ملازمین کو واپس بلائے، بصورت دیگر انھیں دیا گیا سفارتی استثنیٰ واپس لے لیا جائے گا۔ غیر ملکی سفارت کاروں کو دی جانے والی مراعات کو سفارتی استثنیٰ کہا جاتا ہے جس میں مقامی ملکی قوانین سے استثنیٰ بھی شامل ہے۔
اس کے بعد کل کینیڈا نے بتایا کہ کینیڈا کے 41 سفارتکار اور ان کے اہل خانہ انڈیا چھوڑ چکے ہیں۔
کینیڈا کے تعلیمی اداروں میں غیر ملکی طلبا کی سب سے زیادہ تعداد انڈیا سے ہے اور انڈین طلبا کے پاس کینیڈا کے جاری کردہ 40 فیصد سٹڈی پرمٹ ہیں۔
Comments are closed.