انڈیا میں مسلمانوں پر تشدد کے واقعات پر کینیڈا سے تنقید کیوں کی جا رہی ہے؟
جگمیت سنگھ اس پارٹی کے رہنما ہیں، جو کینیڈا کی جسٹن ٹروڈو حکومت کے اہم اتحادی ہے
کینیڈا کی نیو ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما جگمیت سنگھ نے انڈیا میں مسلمانوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔
جگمیت سنگھ نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ ‘مودی حکومت کو ملک میں مسلمان مخالف جذبات کو روکنا چاہیے۔‘
جگمیت سنگھ نے لکھا کہ ’میں انڈیا میں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے والی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر بے حد پریشان ہوں۔ مودی حکومت کو مسلم مخالف جذبات بھڑکانے کے سلسلے کو روکنا چاہیے۔
’انسانی حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے، کینیڈا کو دنیا بھر میں امن کے لیے ایک مضبوط کردار ادا کرنا چاہیے۔‘
انڈین نژاد جگمیت سنگھ اُس پارٹی کے رہنما ہیں، جو کینیڈا کی جسٹن ٹروڈو حکومت کی اہم اتحادی ہے۔ پچھلے انتخابات میں جگمیت سنگھ کی پارٹی نے 24 سیٹیں جیتی تھیں اور وہ ایک طرح سے کنگ میکر کا کردار نبھا رہے تھے۔
جگمیت سنگھ کا یہ ٹویٹ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب انڈیا میں ہندو تہوار رام نومی کے موقع پر کئی ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور آتش زنی کے کیس درج کیے گئے ہیں۔
ریاست مدھیہ پردیش کے کھرگون ضلع میں ہونے والے تشدد پر سب سے زیادہ بات ہو رہی ہے کیوںکہ یہاں انتظامیہ نے بلڈوزر سے لوگوں کے گھروں کو مسمار کر دیا ہے۔
انڈیا نے جگمیت سنگھ کو ویزا نہیں دیا تھا
دسمبر 2013 میں انڈیا نے جگمیت سنگھ کو امرتسر جانے کا ویزا نہیں دیا تھا۔
جگمیت سنگھ پنجاب کے ضلع برنالہ کے گاؤں ٹھیکریوال سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا خاندان 1993 میں کینیڈا منتقل ہو گیا تھا۔
انڈیا میں 1984 کے سکھ مخالف فسادات کے بارے میں جگمیت سنگھ نے ہمیشہ کھل کر بات کی ہے۔ جگمیت نے 1984 کے فسادات کو ریاستی سرپرستی میں ہونے والا فساد قرار دیا تھا۔
سنہ 2013 میں جب انڈین حکومت نے انھیں ویزا دینے سے انکار کیا تو ٹائمز آف انڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ’میں 1984 کے فسادات کے متاثرین کو انصاف دلانے کی بات کرتا ہوں، اس لیے انڈین حکومت مجھ سے ناراض ہے۔
’سنہ 1984 کے فسادات دو برادریوں کے درمیان فساد نہیں تھے بلکہ ریاستی سرپرستی میں ہونے والی نسل کشی تھی۔‘
جگمیت سنگھ 1984 کے سکھ مخالف دنگوں کو مسل کشی قرار دیتے ہیں
’واشنگٹن انڈیا میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی مذمت سے پرہیز کیوں کر رہا ہے‘
کینیڈا کے رہنما جگمیت سنگھ سے پہلے امریکی نمائندہ الہان عمر نے بھی بائیڈن انتظامیہ پر الزام لگایا تھا کہ وہ نریندر مودی حکومت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید سے گریز کر رہی ہے۔
گذشتہ ہفتے امریکی پارلیمان کی ایک کمیٹی کے سامنے الہان عمر نے الزام لگایا تھا کہ انڈیا میں مسلم اقلیتوں کے خلاف ایک طویل مہم چلائی جا رہی ہے۔
انھوں نے نائب وزیر خارجہ سے سوال کیا تھا کہ امریکی حکومت مودی حکومت پر تنقید سے کیوں گریز کر رہی ہے۔
الہان عمر نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ ’مودی حکومت نے انڈیا میں مسلمان ہونا ایک جرم بنا دیا ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’بائیڈن انتظامیہ کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔‘
اس کے بعد گذشتہ پیر کو انڈیا کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کے بعد پریس کانفرنس کے دوران امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ امریکہ انڈیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
بلنکن نے کہا کہ ’ہم مشترکہ اقدار پر اپنے انڈین شراکت داروں سے باقاعدگی سے بات کرتے ہیں اور انڈیا میں کچھ ریاستی حکومتوں، پولیس اور جیل حکام کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہماری نظر ہے۔‘
وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بدھ کو ہی امریکی وزیر خارجہ کے انسانی حقوق کے بیان پر انڈیا کا ردِ عمل پیش کیا۔ ایس جے شنکر کے بیان کے بارے میں سوشل میڈیا پر بھی کافی بحث ہو رہی ہے۔
وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور انڈین سفیر ترنجیت سنگھ
جے شنکر نے کہا کہ ’پیر کو واشنگٹن میں ہونے والی میٹنگ میں انڈیا میں انسانی حقوق کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ لوگوں کو ہمارے بارے میں اپنی رائے رکھنے کا حق ہے۔
’تاہم اسی طرح ہمیں بھی ان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا حق ہے۔ ہمیں ان مفادات کے علاوہ ان لابیوں اور ووٹ بینکوں پر بات کرنے کا حق ہے جو ان کو ہوا دیتے ہیں۔ ہم اس معاملے پر خاموش نہیں رہیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ‘ہم دوسروں کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کے بارے میں بھی ایک رائے رکھتے ہیں۔ خاص طور پر جب بات ہماری کمیونٹی کی ہو۔ میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ ہمارے پاس یہاں امریکہ میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں کہنے کو بہت کچھ ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
کینیڈین وزیراعظم نے کسانوں کی تحریک پر انڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا
اس سے قبل دسمبر 2020 میں کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے انڈیا میں جاری کسانوں کی تحریک کے دوران مظاہرین کے ساتھ سیکورٹی فورسز کے رویے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ان کی حکومت ہمیشہ پرامن احتجاج کی حامی رہی ہے۔
اس وقت انڈین وزارت خارجہ نے ٹروڈو کے بیان پر سخت اعتراض کیا تھا۔ انڈیا کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ کینیڈا کے وزیر اعظم کا بیان غیر ضروری ہے اور یہ ایک جمہوری ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔
کینڈا کے وزیر اعظم نے کسانوں کی تحریک پر انڈین حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا
جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ ‘صورتحال تشویشناک ہے۔ ہم تمام مظاہرین کے اہل خانہ اور دوستوں کے بارے میں فکر مند ہیں۔
’میں آپ کو یاد دلانا چاہوں گا کہ کینیڈا ہمیشہ سے پرامن احتجاج کے حق کا حامی رہا ہے۔ ہم بات چیت کی اہمیت پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم نے اس حوالے سے انڈین حکام سے براہِ راست بات کی ہے۔‘
اسی سال کینیڈا میں ٹرک ڈرائیوروں نے زبردست احتجاج کیا تھا۔ درحقیقت ٹروڈو حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا، جس کے مطابق امریکہ سے آنے والے صرف ان ٹرک ڈرائیوروں کو کینیڈا میں داخلے کی اجازت دی گئی تھی جنہوں نے کورونا کی ویکسین لگوا رکھی تھی۔
بصورت دیگر انھیں قرنطینہ میں رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ٹرک ڈرائیوروں کی ایسوسی ایشن نے اس اصول کی مخالفت کی اور کینیڈا اور امریکہ کے درمیان ایک اہم پل کو بلاک کر دیا گیا۔
تاہم عدالتی حکم کے بعد کینیڈین پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔ کئی مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔
انڈین عوام سوشل میڈیا پر کینیڈین پولیس کی کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ٹروڈو ایک طرف انڈیا میں کسانوں کے احتجاج کی حمایت کر رہے تھے اور دوسری جانب اپنے ملک میں ہونے والے مظاہرے کو زبردستی کچل رہے تھے۔
Comments are closed.