دیوالی کی تیاریاں: برطانیہ میں کووڈ اور لاری ڈرائیوروں کی کمی کے سبب دیوالی کی تیاریاں متاثر
- راحیلہ بانو
- بی بی سی ایشیا نیٹ ورک
سیتل راجہ ارجن بولٹن میں ایک سٹور چلاتی ہیں
برطانیہ میں کووڈ اور لاری ڈرائیوروں کی کمی کے سبب دیوالی کی تیاریاں متاثر ہو رہی ہیں۔
دیوالی کا تہوار جمعرات کو منایا جائے گا۔ یہ تہوار ہندو، سکھ اور جین دھوم دھام سے مناتے ہیں۔
سیتل راجہ ارجن بولٹن میں ایک سٹور چلاتی ہیں۔ ان کا کاروبار انڈیا سے آنے والی ڈیلیوری پر انحصار کرتا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ کووڈ سے پہلے ہفتے میں چار ڈیلیوریاں آتی تھیں جبکہ اب ہفتے میں صرف ایک ڈلیوری آتی ہے۔
بریگزٹ اور کووڈ کے بعد سے برطانیہ میں لاری ڈرائیوروں کی کمی ہو گئی ہے۔ اکتوبر میں حکومت نے پانچ ہزار لاری ڈرائیوروں کے لیے عارضی ویزے متعارف کرائے تھے۔
سیتل راجہ ارجن کا سٹور ’ہاؤس آف راجہ’ تہواروں کے لیے چمکدار رنگوں اور بھاری کڑھائی والی ریشمی ساڑھیوں سے لے کر موم بتیاں اور مٹھائیاں اور کھانے کی اشیا تک ہر چیز فروخت کرتا ہے۔
راجہ ارجن نے کہا کہ تاخیر کی وجہ سے انہیں وقتِ ضرورت کے بعد سٹاک ملا ہے جس کا مطلب ہے کہ اب ان کے پاس اضافی اشیاء موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈیلیوری میں کمی کی وجہ سے ان کے کاروبار کو اس موقع پر پچاس فیصد کا نقصان ہوا ہے کیونکہ ان کے بہت سے گاہکوں نے دیوالی سے پہلے آنے والے تہوار نوراتری کے لیے نئے کپڑے خرید لیے ہوں گے۔
انڈیا سے آنے والا سامان دوکانوں میں تاخیر سے پہنچا
ان کا کہنا تھا کہ ‘سامان وقت پر نہیں پہنچا تھا اس لیے دیوالی کے بعد میرے پاس بہت زیادہ سامان بچے گا’
وہ کہتے ہیں ‘ہمیں عام طور پر حلوے کے چھ سے سات ہزار پیکٹ موصول ہوتے تھے لیکن ہم خوش قسمت ہیں کہ اس بار نو سو پیکٹ موصول تو ہوئے۔’
ان کا کہنا تھا کہ وہ یہاں جو سامان فروخت کرتی ہیں وہ ڈلیوری کی پریشانی کے سبب ان تک نہیں پہنچا۔
ان کا کہنا تھا ‘جب آپ تیس سال سے بغیر کسی رکاوٹ یا پریشانی کے ایک کام کرتے چلے آ رہے ہوں اور اچانک اس میں رکاوٹ آ جائے تو آپ کو کچھ سمجھ نہیں آتا کیونکہ آپ کے پاس کوئی پلان ہی نہیں ہوتا۔ کیونکہ کووڈ کا تو کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا’۔
کووڈ سے 29 سالہ ہیرن پٹیل جیسے لوگ بھی متاثر ہوئے ہیں جو دیوالی کے لیے کپڑوں اور کھانے پینے کی شاپِنگ کرنے انڈیا جایا کرتے تھے لیکن اس بار انہیں اپنا منصوبہ تبدیل کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیے
ان کا کہنا تھا کہ ‘تقریبات کے لیے مخصوص خریداریوں کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے کہ کچھ مخصوص آٹے جو آپ کو کچھ مخصوص پکوانوں کے لیے درکار ہوتے ہیں لیکن اشیا کی قیمتوں میں اضافے سے بھی اس بات پر اثر پڑتا ہے کہ ہم عام طور پر کیا پکوان بناتے ہیں’۔
ہیرن پٹیل کا کہنا ہے کہ ’اشیا کی قیمتوں میں اضافے سے بھی اس بات پر اثر پڑتا ہے کہ ہم عام طور پر کیا پکوان بناتے ہیں
طالب علم انیتا وکاریا بھی عام طور پر تہوار کے چار جوڑے خریدنے کے لیے اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا جاتی ہیں لیکن اس سال انہیں یہیں سے شاپِنگ کرنی پڑی۔
ان کا کہنا تھا کہ تہوار کی تیاریوں کے دوران انہیں کھانے پینے کی اشیا اور دیگر سامان کی کمی کا احساس ہوا لیکن انھوں نے راجہ ارجن کی تعریف کی جنھوں نے ان کے مطابق ’سیتل نے بہت خوبی سے یہ یقینی بنایا ہے کہ ہر کسی کی ضرورت کی چیزیں اسے مل جائیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ مسائل کے باوجود ہر کوئی تہوار اور جشن منانے کے لیے بےقرار ہے کیونکہ کووڈ کی وجہ سے زیادہ تر لوگ اپنے عزیزوں کو نہیں دیکھ سکے تھے۔ اس سال یہ تہوار خاص ہوگا کیونکہ اب آپ اپنے عزیزوں سے مل سکتے ہیں۔
انکا کہنا تھا’ اس وبا میں میں نے اپنے خاندان کے افراد، دوستوں، ساتھیوں اور یونیورسٹی کے دوستوں کو کھو دیا ہے۔یہ مشکل دور تھا لیکن اب آگے اچھا وقت آ رہا ہے’
Comments are closed.