انڈیا میں بننے والے ’پہلے کرسمس کیک‘ کی کہانی
- مصنف, اشرف پڈانا
- عہدہ, کیرالہ
ممبالی خاندان اپنے کرسمس کیک کے لیے جانا جاتا ہے
نومبر 1883 میں مرڈوک براؤن نامی ایک سکاٹش تاجر رائل بسکٹ فیکٹری گیا جو اب جنوبی انڈیا کی ریاست کیرالہ میں ہے، اور اس کے مالک ممبالی باپو سے پوچھا کہ کیا وہ ان کے لیے کرسمس کا کیک بنائیں گے۔
سکاٹش تاجر جن کا ساحلی ریاست کے مالابار علاقے میں دار چینی کا ایک بڑا باغ تھا، وہ برطانیہ سے ایک کیک بطور نمونہ ساتھ لائے تھے۔ انھوں نے باپو کو بتایا کہ یہ کیسے بنایا جائے گا۔
باپو روٹی اور بسکٹ بنانا جانتے تھے، ایک ہنر جو انھوں نے برما (موجودہ میانمار) میں بسکٹ فیکٹری میں سیکھا تھا لیکن انھوں نے کبھی کیک نہیں بنایا تھا۔ لیکن انھوں نے براؤن کی ہدایات کے مطابق اسے آزمانے کا فیصلہ کیا اور ترکیب میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں۔
لیکن باپو نے کیک کے بیٹر میں مقامی طور پر بنی کاجو اور سیب کی شراب ملا دی، جبکہ براؤن نے اس میں برانڈی شامل کرنے کا مشورہ دیا تھا اور قریبی فرانسیسی بستی سے برانڈی لانے کا مشورہ دیا تھا۔
اور باپو کی ترکیب کا نتیجہ ایک منفرد کیک تھا جو مکمل طور پر مقامی اجزا سے بنایا گیا تھا۔
جب براؤن نے اسے چکھا تو وہ ذائقے سے اتنا خوش ہوا کہ مزید ایک درجن کا آرڈر دے دیا۔
باپو کے بھتیجے کے پڑپوتے پرکاش ممبلی کہتے ہیں کہ ’اس طرح ہندوستان میں پہلا کرسمس کیک بنایا گیا تھا۔‘
اگرچہ اس کہانی کو ثابت کرنے کے لیے کوئی سرکاری دستاویزات موجود نہیں ہیں لیکن ممبالی باپو نے جو بیکری شروع کی تھی وہ آج کے علاقے تھلاسری میں موجود ہے اور یہ انڈیا میں کرسمس سے جڑی کہانیوں کا حصہ ہے۔
باپو کی چوتھی نسل کو ان کی میراث پر فخر ہے۔
ممبالی خاندان کی رائل بسکٹ فیکٹری جس کا مرڈوک براؤن نے 140 سال پہلے دورہ کیا تھا
پرکاش ممبالی کہتے ہیں ’باپو نے ہندوستانیوں کو برطانوی ذائقہ سے متعارف کرایا۔ انہوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران فوجیوں کے لیے کیک اور مٹھائیاں بھی برآمد کیں۔‘
بعد میں ممبالی خاندان نے مختلف ناموں سے کئی دکانیں کھولیں، جو کیک سے محبت کرنے والوں کی پسندیدہ جگہیں بن گئی ہیں۔
تھلاسری میں اس خاندان کی پرانی بیکری اب بھی موجود ہے جسے پرکاش ممبالی چلاتے ہیں۔ ان کے دادا گوپال ممبالی کو یہ بیکری اپنی نانی کے خاندان سے وراثت میں ملی تھی۔ اس وقت کیرالہ میں وراثت کی یہ روایت تھی۔ ممبالی خاندان کو اپنے مشہور کرسمس کیک کی ترکیب ان کے پردادا سے وراثت میں ملی ہے۔
گوپال ممبالی کے 11 بچے تھے اور وہ سبھی بڑے ہوئے اور خاندانی کاروبار میں شامل ہو گئے۔
تھلاسری میں اپنے قیام کے بعد سے موجود یہ چھوٹی سی دکان اب قریب کے ایک نمایاں مقام پر منتقل ہو گئی ہے۔
ممبالی نے، جو اب ساٹھ کے پیٹے میں ہیں، بی بی سی کو بتایا کہ ’لیکن ہم اب بھی اپنے کیک کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے روایتی طریقے استعمال کرتے ہیں۔‘
تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس خاندان نے بھی اپنے کیک میں نئے ذائقے آزمائے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں ’اب ہم اپنے صارفین کی ضروریات کے مطابق دو درجن سے زیادہ اقسام بناتے ہیں۔‘
ان کی اہلیہ لیزی پرکاش کا کہنا ہے کہ ان کے آرڈرز کی اکثریت دوسرے انڈین شہروں جیسے ممبئی، بنگلور، چنئی اور کولکتہ سے آتی ہے۔
1883 میں، ممبالی باپو کو ایک سکاٹ نے پہلی بار کرسمس کیک بنانے کو کہا
یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ کیرالہ کرسمس کیک کے لیے ایک بڑے مرکز کے طور پر ابھرا ہے جہاں مسیحی برادری کی آبادی ریاست کی 33 ملین آبادی کا 18 فیصد ہے۔ ریاست چھوٹی چھوٹی بیکریوں اور کیفیز سے بھری ہوئی ہے جو اپنی میٹھائیوں کے لیے مشہور ہیں۔
جنوری 2020 میں، ریاست کی بیکرز ایسوسی ایشن نے 5.3 کلومیٹر (3.2 میل) لمبے کیک کے ساتھ دنیا کے سب سے لمبے کیک کے لیے گنیز ورلڈ ریکارڈ قائم کیا، جس نے چین کے 3.2 کلومیٹر کے ریکارڈ کو مات دی۔
کووڈ وبائی امراض کی وجہ سے دو سال کی خاموش تقریبات کے بعد، اس بار ریاست میں کرسمس کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔
ممبلی بیکری میں نومبر سے ہی کیک بنانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں اور کیک بنانے کے اجزاء کو شراب میں بھگو دیا گیا۔
یہ کیک دسمبر کے تیسرے ہفتے سے بنائے جانے لگے۔
پرکاش ممبالی نے کہا ’نوجوان عام طور پر فریش کریم کیک کو ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ انہیں بہت کم وقت کے لیے رکھا جا سکتا ہے، لیکن اس سیزن میں ان کی بہت زیادہ مانگ ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ کیک کی فروخت کرسمس کے پہلے ویک اینڈ سے شروع ہو کر نئے سال تک جاری رہتی ہے۔
Comments are closed.