انڈین خارجہ سیکریٹری کا دورہ میانمار: انڈیا میانمار میں چین کے چیلنج کا کیسے مقابلہ کرے گا؟
- پون سنگھ اتل
- نامہ نگار، بی بی سی
انڈیا کے خارجہ سکریٹری ہرش وردھن شرنگلا میانمار کے دورے پر ہیں۔ رواں برس فروری میں میانمار کی فوج نے آنگ سان سوچی کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا جس کے بعد سے یہ انڈیا کے کسی اعلیٰ سطحی وفد کا میانمار کا پہلا دورہ ہے۔
انڈیا کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ اپنے دو روزہ دورے کے دوران سیکریٹری خارجہ شرنگلا حکمران ریاستی انتظامی کونسل، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے لوگوں سے ملاقات کریں گے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ میانمار کے ساتھ انسانی امداد، سکیورٹی، انڈیا-میانمار سرحد اور وہاں کی سیاسی صورتحال پر بھی بات چیت کی جائے گی۔
انڈیا اور میانمار کی سرحد تقریباً 1,640 کلومیٹر لمبی ہے۔ یہ سرحد منی پور اور ناگالینڈ جیسی ریاستوں سے گزرتی ہے۔ انڈیا کو حالیہ دنوں میں ان ریاستوں میں شدت پسندانہ سرگرمیوں پر تشویش ہے۔
سٹریٹجک نقطہ نظر سے میانمار انڈیا کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ واحد ملک ہے جو انڈیا کا پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی ’ایکٹ ایسٹ پالیسی‘ کا حصہ بھی ہے۔
اسی مہینے میں آنگ سان سوچی کو میانمار میں حکومت کے خلاف مظاہروں پر اکسانے کے جرم میں چار سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جسے بعد میں کم کر کے دو سال کر دیا گیا تھا۔
اس بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انڈیا نے اس وقت کہا تھا کہ پڑوسی ہونے کے ناطے انڈیا میانمار میں جمہوریت کا حامی ہے اور تازہ ترین فیصلوں سے فکرمند ہے۔
1854 میں برمی بادشاہ کا ایک نمائندہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے حکام سے ملنے کلکتہ آیا۔ یہ لندن کے ایک اخبار میں شائع ہونے والی تصویر ہے۔
انڈیا میانمار تعلقات کی تاریخ
انڈیا اور میانمار کے تعلقات صدیوں پرانے ہیں اور بدھ مت ان تعلقات کا ایک مضبوط رشتہ ہے۔ وہاں کے سماج اور ثقافت پر بدھ مت کے گہرے نقوش واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات 1948 میں برطانوی راج کے خاتمے کے بعد قائم ہوئے تھے۔
میانمار (اس وقت برما) برطانوی دور میں برٹش انڈیا کا ایک صوبہ تھا۔ جس کی وجہ سے دونوں کے درمیان تعلقات بہت مضبوط تھے۔
لیکن مارچ 1962 میں فوج نے جمہوری حکومت کو اقتدار سے ہٹا دیا۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہونے لگے۔ اگلے 49 سال تک فوج اقتدار میں رہی اور جمہوریت کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو نظر انداز کیا۔
اس دوران صرف انڈیا کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے 1987 میں برما کا دورہ کیا تھا۔ طویل جدوجہد کے بعد جمہوریت کے حامیوں کی جیت ہوئی اور 2011 کے عام انتخابات کے بعد جمہوریت ملک میں واپس آ گئی۔
ان انتخابات میں میانمار میں جمہوریت نواز تحریک کا ایک نمایاں چہرہ اور دہلی کے لیڈی شری رام کالج سے تعلیم حاصل کرنے والی آنگ سان سوچی کی پارٹی برسراقتدار آئی۔
فوج اس کے خلاف ہونے والے مظاہروں سے سختی سے نمٹ رہی ہے۔
توازن کی کوشش
انڈیا کے خدشات ایک طرف لیکن میانمار پر مغربی ممالک کا رویہ یکم فروری 2021 کے بعد بدل گیا ہے۔ جب سے فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے، امریکہ سمیت مغربی ممالک نے اس ملک پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
حالیہ برسوں میں انڈیا اور امریکہ کے درمیان جو قربت پیدا ہوئی ہے اس کی وجہ سے ایسے ملک سے دوستی کرنا آسان نہیں ہے جس پر امریکہ کی طرف سے پابندیاں لگائی گئی ہوں۔ لیکن ممکنہ امریکی اعتراضات کے باوجود انڈیا نے میانمار کی طرف ہاتھ بڑھایا ہے۔ کچھ ماہرین اسے ‘ٹائٹ روپ واک’ بھی کہہ رہے ہیں۔
مغربی ممالک کی پابندیوں کے باوجود چین میانمار کی فوجی انتظامیہ کے ساتھ بلاامتیاز کام کر رہا ہے۔ انڈیا کے لیے میانمار میں چینی اثر و رسوخ کو کم کرنا بھی ضروری ہے۔
میرا شنکر انڈین فارن سروس کی افسر رہی ہیں اور 2009 سے 2011 تک امریکہ میں انڈیا کی سفیر بھی رہ چکی ہیں۔
بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے میرا شنکر نے کہا کہ ’مغربی ممالک کی پابندیوں کی وجہ سے میانمار کے پاس چین کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔ لیکن میانمار ہمارا پڑوسی ملک ہے۔ ہماری سلامتی ان سے جڑی ہوئی ہے۔
’ایشیا سے ہمارا جنوب مشرقی رابطہ میانمار کے ذریعے ہے۔ لہٰذا ہمارے لیے پابندیوں کے باوجود میانمار سے تعلقات توڑنا مشکل ہے۔ لیکن ہمیں مذاکرات کے ساتھ ساتھ میانمار پر بین الاقوامی اتفاق رائے کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔ یہ ایک باریک رسی ہے۔‘
میرا شنکر کہتی ہیں کہ امریکہ بھی جانتا ہے کہ انڈیا کے لیے چیلنج کچھ اور ہے، ’اگر میانمار کو چین کی طرف دھکیلنے والی صورتحال بالکل بھی انڈیا کے لیے اچھی نہیں ہے تو ہمیں میانمار کے ساتھ کچھ تعلقات برقرار رکھنے چاہییں۔‘
یہ آنگ سان سوچی کی پارٹی کے دور میں تھا جب چین نے میانمار میں بہت بڑی سرمایہ کاری کی۔ مغربی پابندیوں کے باوجود چین اب میانمار کی فوجی حکومت کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے۔
میانمار میں چینی مداخلت
چین میانمار کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ وہاں آنے والے کل سامان یعنی درآمدات میں سب سے زیادہ حصہ چین کا ہے۔ اور میانمار سے برآمدات کا سب سے بڑا حصہ چین تک پہنچتا ہے۔
چین سے مشینری، ٹیلی کمیونیکیشن، گاڑیاں اور دھاتی مصنوعات میانمار آتی ہیں۔ چین برما سے کیلے، چاول، پٹرولیم گیس، ربڑ اور ٹن جیسی نایاب اشیاء درآمد کرتا ہے۔
لیکن میانمار کے پاس تیل اور قدرتی گیس کے بڑے ذخائر ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور تیز رفتار اقتصادی ترقی کی شرح کے باعث چین کی توانائی کی طلب میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں، سمنت سمسانی کہتے ہیں، ’میانمار کا جغرافیائی محل وقوع چین کے منصوبوں کو مزید تیز کرتا ہے۔ چین نے میانمار کے صوبہ راکھین سے اس کے صوبہ یونان تک چار اعشاریہ پانچ ارب امریکی ڈالر کی قدرتی گیس اور تیل کی پائپ لائن بنائی۔‘
چین دوسرے ممالک میں ایسا کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، لیکن چینی کمپنی ’چائنا نیشنل پیٹرولیم کارپوریشن‘ میانمار میں پائپ لائن بچھانے والی کمپنی میں پچاس فیصد سے زیادہ حصص رکھتی ہے۔
گیتا کوچر دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں اور چین پر خصوصی نظر رکھتی ہیں۔ کوچر کا کہنا ہے کہ میانمار قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور چین وہاں اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کو مزید وسعت دینے کے امکانات دیکھتا ہے۔
گیتا کوچر نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’چین اس تمام علاقے میں اپنی بی آر آئی مہم کو آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ اس سے اس کے معاشی اثرات میں بہت اضافہ ہو گا۔ یہ چین کے لیے بھی اہم ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو چینی کی برآمدات میں کمی آئی ہے اور اب چین کو بھی چینی کی ضرورت ہے۔
’دوسری اہم چیز چین کی توانائی کی ضروریات ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی سے چین کی ضروریات بڑھیں گی۔ صرف میانمار ہی نہیں چین بھی ایران سے پاکستان تک پائپ لائن بچھائے جانے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ تیسرا یہ کہ چین سپر پاور بننے کی خواہش رکھتا ہے۔ اسے اتحادیوں کی ضرورت ہے۔ ایسے اتحادی ممالک جو کسی بھی صورت حال میں اس کی حمایت کرتے ہیں۔‘
میانمار بھارتی ریاست منی پور کے مور قصبے میں اس پل کے اس پار ہے۔ اب اس قصبے سے شروع ہو کر ایک سڑک تھائی لینڈ تک جائے گی۔
چینی اثر و رسوخ
انڈیا کے لیے میانمار میں چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنا اور اپنے مفادات کو پورا کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔
میرا شنکر کہتی ہیں، ’انڈیا نے میانمار میں کچھ منصوبے شروع کیے تھے جن میں سڑکیں اور بندرگاہوں کی تعمیر بھی شامل تھی، وہ اب بھی جاری ہیں۔ اس طرح کا مزید تعاون ہونا چاہیے۔ کچھ انڈین سرمایہ کار بھی میانمار میں پیسہ لگا رہے تھے۔
’خاص طور پر میانمار کے توانائی کے شعبے میں لیکن فوج کے اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے ان منصوبوں کو واپس لے لیا کیونکہ کوئی بھی نجی کمپنی امریکہ سے نفرت نہیں کرنا چاہتی۔‘
انڈیا کالادان پراجیکٹ کا حصہ ہے جو کولکتہ کی بندرگاہ کو میانمار کی سیتوے بندرگاہ سے اور پھر چین صوبے کے پالیچوا کو سیتوے بندرگاہ سے جوڑے گا۔
آخر کار پالیچوا کو سڑک کے ذریعے میزورم اور انڈیا کے شمال مشرق سے جوڑا جائے گا۔ یعنی اس پراجیکٹ کے ذریعے میزورم کو خلیج بنگال سے جوڑا جا سکتا ہے۔
انڈیا، میانمار اور تھائی لینڈ دوسرے بڑے سڑک منصوبے میں حصہ لے رہے ہیں۔ سہ فریقی ہائی وے پراجیکٹ کے نام سے جانا جانے والا یہ پراجیکٹ منی پور کے مور سے شروع ہو کر تھائی لینڈ کے مائے سوت تک جائے گا۔
اس کے علاوہ گیتا کوچر کا خیال ہے کہ انڈیا کو چین کا مقابلہ کرنے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ فوجی تعاون بڑھانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے کہا کہ ’اگر مستقبل میں چین اور میانمار کے درمیان فوجی تعاون بڑھتا ہے تو انڈیا کے لیے ایک مسئلہ ہو جائے گا۔ انڈیا کو نہ صرف دوسرے ممالک کے ساتھ دوستی کے تعلقات قائم کرنے چاہییں، بلکہ ویتنام کے ساتھ ملٹری ٹو ملٹری تعلقات بھی قائم کرنے چاہییں۔ انڈیا کو ایسے موضوعات پر ہچکچاہٹ نہیں برتنی چاہیے۔‘
میانمار میں فوج ایک بار پھر اقتدار میں ہے لیکن اس بار اسے عوام کے غصے کا بھی سامنا ہے۔ وہیں بیونٹس کے خوف کے باوجود مظاہرین سڑکوں پر آ کر جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
یکم فروری 2021 کو ملک کا اقتدار فوج کے حوالے کیے جانے کے بعد سے اب تک مظاہروں کے دوران 1200 شہری مارے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں لوگ جیلوں میں بند ہیں۔
اس پس منظر میں یہ کہنا شاید غلط نہ ہو گا کہ انڈیا کی میانمار پالیسی کا مستقبل اس بات پر بھی منحصر ہو گا کہ وہاں فوجی راج کتنا عرصہ چلتا ہے اور جمہوریت کی واپسی میں کتنا وقت لگتا ہے۔
Comments are closed.