انڈیا عالمی طاقت بننے کی راہ پر گامزن یا دیگر عالمی طاقتوں کے کھیل میں ایک مہرہ؟

modi

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, شکیل اختر
  • عہدہ, بی بی سی اردو، نئی دہلی

جاپان، پاپوا نیو گنی اور آسٹریلیا کے دورے سے دلی لوٹنے کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ ’آج دنیا جاننا چاہتی ہے کہ انڈیا کیا سوچ رہا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ وہ غیر ممالک میں پورے اعتماد کے ساتھ انڈیا اور انڈینز کی طاقت کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’پوری دنیا کے رہنماؤں کو معلوم ہے کہ وہ انڈیا کے عوام کی آواز ہیں۔‘

انڈیا کے آئی ٹی اور ٹیکنالوجی کے وزیر راجیو چندر شیکھر نے اس دورے کے بارے میں ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا کہ جون میں وزیر اعظم کے واشنگٹن کے دورے پر وزیراعظم مودی کے ڈنر میں شرکت کے لیے اتنی درخواستیں آ رہی ہیں کہ وہ منع کرتے کرتے تھک گئے ہیں۔ انھوں نے مودی سے آٹو گراف بھی مانگا۔‘

انھوں نے اس میں مزید لکھا ہے کہ ’پاپوا نیو گنی کے وزیراعظم نے بصد احترام مودی کے پیر چھوئے۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم نے کہا کہ مودی ’باس‘ ہیں۔ تاریخ میں اس طرح کے لمحات شاذو نادر ہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ایسے واقعات ہیں جو وزیر اعظم مودی کی مسلسل کوششوں اور محنت کا نتیجہ ہیں۔‘

انڈیا میں عوام کی ایک بڑی اکثریت ان کے اس بیان سے متفق نظر آتی ہے۔ گذشتہ دنوں سینٹر فار سٹڈیز آف ڈویلپمنگ سوسائٹیز کے ایک سروے میں پایا گیا کہ ’ملک میں 63 فیصد لوگ یہ مانتے ہیں کہ مودی نے بین الاقوامی سطح پر ملک کا رتبہ کافی اونچائی پر پہنچا دیا ہے۔ ان کے خیال میں مودی ایک عالمی رہنما کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں اور بین الاقوامی برادری میں انڈیا کی حیثیت اب بہت اوپر آ چکی ہے۔‘

سنہ 2014 میں وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد وزير اعظم نے بیرونی ممالک کے دوروں کو اپنی پالیسی کا ایک اہم جزو بنا لیا تھا۔ ماضی میں غالباً انڈیا کے کسی بھی وزیراعظم نے غیر ممالک کے اتنے دورے نہیں کیے جتنے وزیراعظم مودی نے اپنے اب تک کے نو سال کے دور اقتدار میں کیے ہیں۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ ان کے غیر ممالک کے دوروں نے ملک میں ان کی مقبولیت کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

modi

،تصویر کا ذریعہGetty Images

نریندر مودی نے سنہ 2014 میں جب اقتدار سنبھالا تو اس وقت انھوں نے جنوبی ایشیا کے سربراہان حکومت کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کیا تھا۔

حکمراں بی جے پی سے قریب سمجھے جانے والے اور دائیں بازو کے سرکردہ نظریہ ساز ڈاکٹر دتا کہتے ہیں کہ ’یہ آزاد انڈیا کی تاریخ میں پہلا موقع تھا جب یہ رہنما ایک ساتھ ایسی کسی تقریب میں مدعو کیے گئے تھے۔ ‘

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے ان میں جدید انڈیا کا چانکیہ (دور قدیم کے ایک عظیم مفکر) نظر آتا ہے۔ نریندر مودی کی پالیسیاں خارجہ پالیسی سے بلند تر ہے۔ وہ وشو نیتی یعنی عالمی بصیرت کی پالیسی ہے۔‘

’متبادل ترقی کی پالیسی ہو، فوڈ سکیورٹی کا معاملہ ہو، ماحولیاتی تبدیلی کا سوال ہو، کاربن اخراج کم کرنے کی بات ہو، خواہ دو ممالک میں کشیدگی ہو، یوکرین اور روس کی لڑائی ہو، ہر جگہ وزیر اعظم مودی نے اپنی الگ سوچ پیش کی ہے۔ میرے خیال میں اںڈیا ’وشوا گرو‘ (عالمی طاقت) بن چکا ہے۔‘

شنگھائی کوآپریشن تنطیم ایس سی او اور جی 20 کی صدارت اس برس انڈیا کے پاس ہے۔ ایس سی او کا سربراہی اجلاس اس برس جولائی میں دلی میں منعقد ہو گا جس میں چین اور روس کے صدر اور پاکستان کے وزیراعظم کی شرکت متوقع ہے۔

ستمبر میں جی 20 کا سربراہی اجلاس ہو گا۔ اس کی ایک میٹنگ حال ہی میں سرینگر میں رکھی گئی تھی۔ پاکستان کے اعتراض کے بعد سعودی عرب، ترکی، چین، اور مصر نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ حالانکہ انڈیا کو امید تھی کہ اس کی سفارتی کوششوں اور ان ملکوں سے بہترین تعلقات کے پس منظر میں یہ ممالک اس میں شریک ہوں گے۔

ڈاکٹر دتا کہتے ہیں ہیں کہ ’میں اس کو منفی نقطہ نظر سے نہیں دیکھتا۔ چار ممالک نہیں آئے لیکن 16 دیگر ممالک نے تو اجلاس میں شرکت کی۔ ان میں بنگلہ دیش اور انڈونیشیا جیسے سب سے بڑے مسلم ممالک بھی شامل تھے۔

’وزیر اعظم نریندر مودی کی سوچ ہمیشہ مثبت ہوتی ہے۔ وہ پوری دنیا کو ایک خاندان تصور کرتے ہیں۔ ان کی شبیہ بہت بڑی ہے۔ وہ ترکی کا زلزلہ ہو، انڈونیشیا کا سیلاب ہو، افریقہ میں قحط سالی ہو یا کووڈ کی وبا ہو، وزیر اعظم مودی کی قیادت میں انڈیا ہر جگہ کھڑا ہوا نظر آتا ہے۔‘

modi and world leaders

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ بھی پڑھیے

وزیر اعظم مودی کے غیر ملکی دورے کا ایک پہلو ان ممالک میں مقیم انڈین نژاد شہری ہیں۔ امریکہ، آسٹریلیا، عرب ممالک اور یورپ میں ڈھائی کروڑ سے زیادہ انڈین آباد ہیں۔

مودی نے بیرون ملک مقیم ہندوستانیوں کو اپنے ساتھ ملا کر انڈیا کی سافٹ پاورمیں تبدیل کر دیا ہے۔ غیر ممالک کے دوروں میں وہاں مقیم انڈینز سے مودی کے خطاب کو پورے انڈیا میں سیکڑوں ٹی وی چینلز براہ راست نشر کرتے ہیں۔

ان پروگراموں میں مہمان ملک کے سربراہان حکومت بھی شریک ہوتے ہیں۔ یہ پروگرام عوام کی نظروں میں مودی کی شبیہ کو بہتر بنانے میں اہم کردار کرتے ہیں۔

ڈاکٹر اشوک سوین سویڈن کی ایک یونیورسٹی میں پیس اینڈ کانفلیکٹ کے شعبے میں پروفیسر ہیں۔

وہ مودی حکومت کی پالیسیوں پر اکثر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے اپنے جواب میں کہا کہ اپنے جمہوری نظام، سیکولر آئینی ڈھانچے اور اصولی خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہونے کے سبب انڈیا کا بین الاقوامی سطح پر ہمییشہ ایک خصوصی مقام رہا ہے۔

بقول ان کے مودی کی پالیسیوں سے انڈیا کی یہ جو جمہوری شناخت تھی وہ ختم ہو گئی ہے اور اب انڈیا ایک ایسے ملک کے طور پر جانا جا رہا ہے جہاں جمہوریت ختم ہو رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا آمریت اور اکثریتی فرقے کے ملک میں بدل رہا ہے۔ اس سے انڈیا کی شبیہ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اںڈیا ایک اخلاقی سپر طاقت بننا چاہتا ہے لیکن کسی بھی عالمی بحران بالخصوص یوکرین کے سوال پر اصولی موقف نہ اختیار کرنے سے یہ امید اب ٹوٹ گئی ہے۔‘

ڈاکٹر سوین کا خیال ہے کہ مغربی جمہوریتیں ’آمرانہ اور میجاریٹیرین‘ انڈیا کو اس لیے برداشت کر رہی ہیں کیونکہ وہ چین کو اپنا اصل دشمن تصور کرتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اسے اس نظریے سے نہیں دیکھا جانا چاہیے کہ عالمی سطح پر انڈیا کا مرتبہ بڑھ گیا ہے بلکہ وہ طاقتور ملکوں کے کھیل میں محض ایک اور مہرہ بن گیا ہے۔‘

australia modi tour

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پروفیسر سٹیو ایچ ہینکی امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی میں اپلائیڈ اقتصادیات کے پروفیسر ہیں۔ وہ امریکہ کے صدر رونالڈ ریگن کی اقتصادی امور کے مشیروں کی کونسل میں بھی شامل تھے۔ ان کے خیال میں ’وزیراعظم مودی کی قیادت میں اںڈیا بھلے ہی ایک عالمی طاقت میں تبدیل نہ ہوا ہو لیکن وہ یقینی طور پر عالمی بساط پر ایک اہم ملک میں تبدیل ہو چکا ہے۔‘

ڈاکٹر ہینکی کہتے ہیں کہ ’انڈیا کی بااثر خارجہ پالیسی سے یقینی طور پر انڈیا کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ مودی اپنی خارجہ پالیسی کے کارڈ کو بہت موثر طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’وزیر اعظم مودی نے زندگی کا یہ اہم سبق سیکھ لیا ہے: یا تو آپ شو چلائيں نہیں تو شو آپ کو چلائے گا۔ آپ پسند کریں یا ناپسند، یہ بالکل واضح ہے کہ وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ شو کیسے چلانا ہے۔‘

انڈیا میں ایک رہنما کے طور پر مقبولیت میں مودی کو اپنے تمام سیاسی حریفوں پر سبقت حاصل ہے۔ عوام کی ایک بڑی اکثریت اس امر پر متفق ہے کہ وزیراعظم مودی نے بین الاقوامی سطح پر ملک کے وقار میں اضافہ کیا اور انڈیا کے آرٹ اور کلچر کو فروغ دیا ہے۔

ان کے نزدیک مودی کی قیادت میں ملک اگر ایک عالمی طاقت یا وشوا گرو نہیں بن سکا ہے تو وہ اب وشوا گرو بننے کی دہلیز پر ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ