انڈیا سے تیل برآمد کرنے پر پابندی: روس سے خریدے گئے سستے تیل کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے؟

تیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انڈیا کی حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی برآمد پر پابندی میں توسیع کر دی ہے۔

یہ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ مقامی مارکیٹ میں ریفائنڈ ایندھن کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔

گذشتہ جمعہ کو ختم ہونے والے مالی سال میں بھی پٹرولیم مصنوعات اور ڈیزل کی برآمد پر پابندی عائد تھی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سنیچر کی شب جاری ہونے والے تازہ ترین نوٹیفکیشن میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ پابندی اب کب ختم ہوگی۔

اس کے مطابق ریفائنریوں کو اپنی کل سالانہ پیٹرولیم برآمدات کا 50 فیصد اور ڈیزل کی برآمدات کا 30 فیصد مقامی مارکیٹ میں فروخت کرنا ہوگا۔

پابندی میں توسیع سے نجی انڈین ریفائنریوں کی روسی ایندھن خریدنے اور پھر اسے دوسرے ممالک کو برآمد کرنے کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ ان میں ان یورپی ممالک کو بھی تیل کی برآمد شامل ہے جنھوں نے یوکرین کی جنگ کی وجہ سے روس سے تیل خریدنا بند کردیا ہے۔

ریلائنس انڈسٹریز اور نیارا انرجی جیسی پرائیویٹ انڈین کمپنیاں روسی تیل کو مقامی مارکیٹ میں فروخت کرنے کے بجائے بھاری سبسڈی والے نرخوں پر برآمد کرکے بہت زیادہ منافع کما رہی تھیں۔

اسی کے پیش نظر انڈین حکومت نے گذشتہ سال یہ پابندی لگائی تھی۔

نجی کمپنیوں کے رویے کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں سپلائی کا سارا بوجھ سرکاری ریفائنریوں پر آن پڑا اور انھیں حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم قیمت پر تیل فروخت کرنا پڑ رہا ہے۔

تیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سستے تیل سے فائدہ کس کو؟

ماہرین کا خیال ہے کہ بڑے پیمانے پر انڈیا کی نجی کمپنیاں سستا روسی تیل درآمد کر رہی ہیں جس سے مستقبل میں زرمبادلہ کے ذخائر پر اثر پڑ سکتا ہے۔

وزارت تجارت و صنعت کے مطابق مئی اور نومبر سنہ 2022 کے درمیان سات مہینوں میں انڈیا نے روس کو تیل کے لیے 20 بلین ڈالر کی ادائیگی کی جو کہ گذشتہ دس سالوں میں اس کی جانب سے ادا کی گئی سب سے بڑی رقم ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جب انڈین حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ قومی مفاد میں روسی تیل درآمد کر رہی ہے تو لوگ توقع کرتے ہیں کہ اس سے عوام کو فائدہ ہوگا۔

یوکرین جنگ سے پہلے دہلی میں ڈیزل کی قیمت 87 روپے تھی جبکہ اب یہ 90 روپے کے قریب ہے۔

انڈیا سے خریدے جانے والے روسی تیل کا تین چوتھائی نجی کمپنیاں ریلائنس اور روس کے زیر کنٹرول نیارا انرجی خریدتی ہیں۔

ریلائنس جو خام تیل خریدتی ہے اس کا ایک تہائی حصہ روس سے آتا ہے، جبکہ جنگ شروع ہونے سے پہلے یہ صرف پانچ فیصد تھا۔

تیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

روس کو 20 ارب ڈالر کی ادائیگی

اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ انڈین آئل کارپوریشن، بھارت پیٹرولیم اور ہندوستان پیٹرولیم جیسی سرکاری تیل کی کمپنیوں کو سستے روسی تیل کا بہت کم حصہ ملتا ہے۔

جبکہ یہ سرکاری کمپنیاں ہی 90 فیصد گھریلو تیل فراہم کرتی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نجی کمپنیاں جو روسی خام تیل درآمد کرتی ہیں، اسے ریفائن کر کے دوبارہ برآمد کرتی ہیں، وہ زیادہ منافع کما رہی ہیں۔ اور وہ ریکارڈ منافع کما رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

حزب اختلاف کانگریس پارٹی کے سینیئر رہنما اور ماہر اقتصادیات پروین چکرورتی کے مطابق انڈیا نے گذشتہ سال کے آخری سات مہینوں میں روس کو تیل کی خریداری کے بدلے 20 ارب ڈالر ادا کیے، جو عام لوگوں کے لیے نہیں بلکہ ’کچھ نجی کمپنیوں کے بھاری منافع کے لیے ادا کیے گئے‘۔

ان کے مطابق ’یوکرین کے شہریوں کی لاشیں کچھ نجی بھارتی کمپنیوں کے منافع کے لیے استعمال کی گئیں‘۔

تیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

روس سے تیل کی درآمد

اقتصادی امور کے ماہر پروفیسر امیتابھ سنگھ نے بی بی سی سے بات چیت میں کہا کہ ’اب تک بھارت تقریباً ایک فیصد خام تیل روس سے درآمد کرتا تھا، اب خام تیل کی درآمد 20 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔‘

انڈیا روس سے روزانہ تقریباً 12 لاکھ بیرل خام تیل خرید رہا ہے۔ خام تیل کے علاوہ انڈیا روس سے خوردنی تیل اور کھاد بھی درآمد کر رہا ہے۔

درآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن دوسری تشویش یہ ہے کہ ملک کی برآمدات کم ہو رہی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق درآمدات میں تقریباً 400 فیصد اضافہ ہوا ہے اور برآمدات میں تقریباً 14 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

انڈیا اور روس نے مقامی کرنسی (روپیہ اور روبل) میں کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ریزرو بینک آف انڈیا نے جولائی سنہ 2022 میں ہی اس کا اعلان کیا تھا اور آر بی آئی نے روسی بینکوں کو بھی انڈیا میں ووسٹرو اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت دی تھی۔

کرنسی نوٹ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

روسی بینکوں میں انڈین روپے کے ڈھیر

ووسٹرو اکاؤنٹ کھلنے سے انڈیا کے ساتھ کاروبار کرنے والے ممالک کو درآمدات یا برآمدات کے لیے ڈالر کے بجائے روپے میں ادائیگی کرنے کی سہولت ملتی ہے۔

انڈیا میں ووسٹرو اکاؤنٹس کھولے گئے ہیں، لیکن اب تک روس کے ساتھ روپے میں زیادہ لین دین نہیں ہوا ہے کیونکہ انڈیا کی زیادہ درآمد کی وجہ سے انڈین کرنسی روس میں جمع ہو رہی ہے۔

روس کے بینک نہیں چاہتے کہ وہاں روپے کے انبار لگتے جائیں۔

پروفیسر امیتابھ سنگھ کے مطابق انڈیا اب تک تقریباً 30 ارب ڈالر کا خام تیل خرید چکا ہے اور یہ رقم روسی بینکوں میں پڑی ہے۔

بقول اُن کے ’روس اس انڈین روپے کو بین الاقوامی تجارت کے لیے استعمال نہیں کر سکتا کیونکہ اس پر پابندی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس کے پاس جمع کرائے گئے روپے کی قدر کم ہو رہی ہے۔ ڈالر کے مقابلے روبل کی قدر بھی کم ہو رہی ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ