انٹر پری انجینئرنگ کے پوزیشن ہولڈر طلبہ نے کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ گندگی، صفائی ستھرائی کی ابتر صورتحال، ٹوٹی سڑکوں اور غیر معیاری ٹرانسپورٹ کو قرار دیا ہے۔
پوزیشن ہولڈرز طلبہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہر کے سرکاری کالجوں میں اساتذہ کا کلاسز نہ لینے کا رویہ عام ہے جبکہ خود طلبہ بھی اس رویے کے سبب عموماً کالج نہیں جاتے اور اوسطاً 20 فیصد طلبہ ہی کالج روز آتے ہیں اور 80 فیصد غیر حاضر رہتے ہیں۔
پہلی پوزیشن کے حامل آدم جی کالج کے سید عماد محمود کا کہنا ہے کہ آدم جی اچھا کالج ہے اس کے نتائج بھی اچھے ہوتے ہیں لیکن انھیں کالج کی تدریس کے ساتھ ساتھ ٹیوشن بھی لینی پڑی۔
سید عماد محمود نے کہا ہے کہ اکثر لڑکے کالج نہیں آتے جبکہ ان کی پورے سال کی حاضری بھی 20 فیصد تک رہی ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ اب انجینئرنگ کے بجائے اعلیٰ تعلیم میں اکاؤنٹینسی کی جانب جارہے ہیں۔
دوسری پوزیشن لینے والے محمد عاقب میمن کا کہنا تھا کہ نجی کالج کا انتخاب اس لیے کیا کہ کالج ان کے گھر سے قریب تھا۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ کیمبرج اور میٹرک دونوں سسٹم ہی اچھے ہیں لیکن کیمبرج کا کامرس کا نصاب زیادہ بہتر ہے۔
محمد عاقب میمن نے بھی انکشاف کیا کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے انہوں نے فیلڈ تبدیل کرلی ہے اور اکاؤنٹیسی لی ہے۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ بورڈ نے اس بار پرچوں میں بہتر انداز میں ٹیکنالوجی کا استعمال کیا لیکن چونکہ ہمارے اساتذہ پرانے ہیں اور ٹیکنالوجی سے آشنا نہیں ہیں لہذا کمیونیکیشن کے مسائل رہے۔
دوسری پوزیشن کی حامل ایک اور طالبہ بحریہ کالج کارساز کی عائشہ نجیب کا کہنا تھا کہ انہوں نے اسلامیات اور مطالعہ پاکستان میں ضرور رٹا لگایا لیکن سائنس کے مضامین سمجھ کر پڑھے۔
عائشہ کی والدہ خود سرکاری کالج کی پروفیسر ہیں لیکن انہوں نے نجی کالج میں اس لیے داخلہ لیا کہ وہ بیک وقت ٹیوشن اور کالج نہیں لے سکتی تھیں۔
عائشہ نجیب نے این ای ڈی میں سوفٹ ویئر انجینئرنگ میں داخلہ لیا ہے۔
علاوہ ازیں تیسری پوزیشن ہولڈر کے حامل عثمان فیضیاب خان کا کہنا تھا کہ کالج کی پڑھائی ناکافی ہوتی ہے اس لیے ٹیوشن لینی ہوتی ہے۔
Comments are closed.