- مصنف, گیون بٹلر
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 26 منٹ قبل
بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے سیاست دان انورا کمارا ڈسانائیکے سری لنکا کے نئے صدر منتخب ہو چکے ہیں۔55 سالہ ڈسانائیکے نے اپوزیشن رہنما سجت پریماداسا کو چناؤ کے دوسرے دور کے بعد شکست دی جبکہ سابق صدر رنیل وکرماسنگھے تیسرے نمبر پر آئے۔یہ نتیجہ ایک ایسی شخصیت کے لیے نہایت حیران کن ہے جس نے 2019 کے انتخابات میں، یعنی صرف پانچ سال قبل، صرف تین فیصد ووٹ لیے تھے۔ڈسانائیکے، جنھوں نے نیشنل پیپلز پاور اتحاد کے امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا، کو حالیہ برسوں میں کرپشن مخالف بیانیے اور غریب طبقے کی مدد کی پالیسیوں کے باعث عوامی حمایت ملی اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب سری لنکا کو ملکی تاریخ کے سب سے برے معاشی بحران کا سامنا رہا۔
انھیں ایک ایسی حکومت ملنے جا رہی ہے جسے اس بحران سے نمٹنا ہو گا جبکہ ملک کی آبادی تبدیلی کا شدت سے انتظار کر رہی ہے۔تو انورا کمارا ڈسانائیکے کون ہیں؟
مارکسزم سے متاثر
24 نومبر 1968 کو گالیویلے میں پیدا ہونے والے ڈسانائیکے ایک متوسط آمدن رکھنے والے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جنھوں نے فزکس میں ڈگری حاصل کی اور طالب علمی کے دور میں ہی سیاست کا رخ کر لیا۔وہ انڈیا اور سری لنکا کے درمیان 1987 میں ہونے والے اس معاہدے کے وقت سیاست کا حصہ بنے تھے جس نے ملک میں خون ریزی کے دور کو جنم دیا تھا۔1987 سے 1989 تک جنتھا ومکتی پیرامونا (جے وی پی) نامی انتہائی بائیں بازو کی سیاسی جماعت، جو مارکسزم سے متاثرہ تھی، نے سری لنکا کی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کی قیادت کی۔ ڈسانائیکے کا بعد میں اس جماعت سے قریبی تعلق رہا۔اس مسلح بغاوت، جس میں دیہاتی علاقوں اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان شامل تھے، کے دوران سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کے خلاف حملوں اور قتل کی کارروائیوں میں ہزاروں جانیں گئیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesڈسانائیکے 1997 میں جے وی پی کی مرکزی کمیٹی میں شامل ہوئے اور 2008 میں اس جماعت کے سربراہ بنے جنھوں نے دہشت کے اس دور میں جماعت کی پرتشدد کارروائیوں پر معافی بھی مانگی۔2014 میں بی بی سی کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’مسلح تنازع کے دوران بہت کچھ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘انھوں نے کہا کہ ’ہم اب تک صدمے میں ہیں کہ ہمارے ہاتھوں جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘جے وی پی، جس کے پاس سری لنکا کی پارلیمنٹ میں صرف تین نشستیں ہیں، اس اتحاد کا حصہ ہے جس کی ڈسانائیکے سربراہی کر رہے ہیں۔
- راجا پکشے خاندان کا عروج جو سری لنکا کے زوال کا سبب بن گیا12 جولائی 2022
- انڈیا سری لنکا میں 1987 والی ’غلطی‘ کیوں نہیں دہرائے گا؟16 جولائی 2022
ایک مختلف رہنما
صدارتی الیکشن کے لیے مہم کے دوران ڈسانائیکے نے سری لنکا کی حالیہ تاریخ کے ایک اور پرتشدد واقعے کا بھی ذکر کیا: یہ 2019 کے ایسٹر دھماکے تھے۔21 اپریل 2019 کو دارالحکومت کولمبو میں ہونے والے دھماکوں میں 290 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے تھے۔پانچ سال بعد بھی تفتیش کے باوجود سکیورٹی کی ناکامی پر تسلی بخش جواب نہیں مل سکا۔ چند لوگ سابق حکومت پر تفتیشی عمل میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں جس کے سربراہ گوتابایا راجا پکشے تھے۔بی بی سی سنہالا کو دیے جانے والے ایک حالیہ انٹرویو میں ڈسانائیکے نے وعدہ کیا کہ وہ منتخب ہونے کی صورت میں اس معاملے کی تفتیش کروائیں گے اور انھوں نے عندیہ دیا کہ سری لنکا کے حکام اب تک ایسا اس لیے نہیں کر سکے کیوں کہ انھیں اپنی ذمہ داری ثابت ہونے کا خوف ہے۔انھوں نے کہا تھا کہ ’یہ سری لنکا کی سیاسی اشرافیہ کا ایک اور ایسا وعدہ ہے جو ادھورا رہا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’یہ صرف اس تفتیش تک محدود نہیں ہے بلکہ جن سیاست دانوں نے کرپشن ختم کرنے کا وعدہ کیا، انھوں نے کرپشن کی، جنھوں نے قرضے ختم کرنے کا وعدہ کیا، انھوں نے اس بوجھ میں اضافہ کیا، جنھوں نے قوانین کو مضبوط کرنے کا وعدہ کیا، انھوں نے ہی ان کو توڑا۔‘’اور اسی لیے اس ملک کی عوام ایک مختلف قیادت کی خواہش مند ہے اور ہم ہی یہ فراہم کر سکتے ہیں۔‘
تبدیلی کے امیدوار
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesڈسانائیکے کو حالیہ الیکشن میں ایک مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا تھا جنھوں نے خود کو ’تبدیلی‘ کے امیدوار کے طور پر متعارف کروایا۔یاد رہے کہ سابق صدر گوتابایا راجا پکشے کو معاشی بحران کے بعد جنم لینے والے مظاہروں میں شرکت کرنے والی عوام کی بڑی تعداد نے ملک سے باہر فرار ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔راجا پکشے اور ان کی حکومت پر الزام تھا کہ وہی اس بحران کے ذمہ دار ہیں تاہم ان کے بعد صدر وکرما سنگھے نے معاشی اصلاحات متعارف کروائیں اور افراط زر میں کمی کرنے اور سری لنکا کی کرنسی کے زوال کو روکنے میں کسی حد تک کامیاب رہے لیکن عوام کی بڑی تعداد اب بھی اس بحران کی وجہ سے پریشان ہے۔2022 کے معاشی بحران کے ساتھ ساتھ انتظامی کرپشن اور سیاسی رویوں نے ایک مختلف قسم کی سیاسی قیادت کی مانگ میں اضافہ کیا ہے اور ڈسانائیکے نے اس طلب کو اپنے فائدے میں استعمال کیا ہے۔انھوں نے خود کو ایک ایسے سیاسی رہنما کے طور پر دکھایا ہے کو سیاسی جمود کو توڑ سکتا ہے۔ انھوں نے متعدد بار کہا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد اپنی پالیسیوں کے لیے نیا مینڈیٹ لیں گے۔ بی بی سی سے حالیہ انٹرویو میں انھوں نے عندیہ دیا تھا کہ وہ یہ کام منتخب ہونے کے بعد چند دنوں میں کریں گے۔انھوں نے کہا تھا کہ ’اس پارلیمنٹ کو جاری رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اگر یہ عوامی خواہشات سے مطابقت نہیں رکھتی۔‘
غریبوں کی وکالت
ڈسانائیکے کرپشن مخالف اقدامات، بڑی فلاحی سکیموں اور ٹیکس میں کمی کی بات کرتے ہیں۔ ٹیکس میں اضافہ اور فلاحی سکیموں میں کٹوتی حالیہ حکومت نے بچت کی پالیسی کے تحت کی تھی جس کا مقصد معیشت کو درست راستے پر واپس لانا تھا۔ تاہم ان اقدامات کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ڈسانائیکے نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان اقدامات کو ختم کریں گے اور ماہرین کی رائے میں ان اعلانات سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔سومیا بھومک انڈیا میں آبزرور ریسرچ فاونڈیشن نامی تھنک ٹینک میں کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت کی وجہ سے لوگ قیمتوں میں کمی اور زندگی میں بہتری کے لیے کسی بھی حل کی تلاش میں ہیں۔‘تاہم چند ماہرین کی رائے میں ڈسانائیکے کی معاشی پالیسیاں سری لنکا کی معیشت کی بحالی کے سفر میں رکاوٹ ڈال سکتی ہیں۔ڈسانائیکے نے کہا ہے کہ وہ کوئی بھی تبدیلی آئی ایم ایف سے مشاورت کے بغیر نہیں کریں گے اور انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ سری لنکا کا قرضہ اتاریں گے۔اتھولاسری سماراکون سری لنکا اوپن یونیورسٹی میں سینئر لکچرر ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سب سے بڑا چیلنج معیشت کی بحالی ہے اور کسی بھی حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا۔‘بی بی سی سنہالا کی اضافہ رپورٹنگ کے ساتھ
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.