انناس: سلطنتِ برطانیہ کی طاقت کی علامت جسے دعوت پر کھایا نہیں صرف سجایا جاتا

پائن ایپل، برطانوی راج

،تصویر کا ذریعہpeopleimages.com/Adobe Stock

،تصویر کا کیپشن

انناس برطانیہ کی شاہی مملکت میں ’پھلوں کا بادشاہ‘ قرار پایا۔ یہ پھل اپنے سر پر سنہری تاج کی نسبت سے ’کنگ پائن‘ مشہورہوا

  • مصنف, وقارمصطفیٰ
  • عہدہ, صحافی، محقق

آسٹریلیا کو برطانیہ کی پِینل کالونی یا جائے سزا بنے 20 سال ہو چکے تھے جب گوڈوِن کہلائے جانے والے جان گوڈنگ کو سات سال کی قید بامشقت کے لیے وہاں بھیجنے کا حکم ہوا۔

تب کی عدالتی کارروائی سے پتا چلتا ہے کہ اچھے کردار کی گواہی سے موت کی سزا میں بھی رعایت ہو جاتی تھی۔اسی لیے 222 سال پہلے انھی دنوں میں گوڈوِن کو بھی ایسی ہی گواہی کے باعث کم سزا ملی حالانکہ جج نے انھیں ’سات انناس (پائن ایپل) چرانے کا مجرم‘ قرار دیا تھا۔

25 جون سنہ 1807 کو 28 سالہ گوڈوِن نے عدالت میں اپنے دفاع میں کہا کہ انناس کی ٹوکری انھیں راستے میں پڑی ملی تھی جسے انھوں نے بازارمیں بیچ دیا کیونکہ اس کا مالک کوئی نہیں تھا۔

مگر انناس ہوں اور ان کا مالک کوئی نہ ہو، یہ کیسے ہو سکتا تھا۔

یہ ایسا نادر پھل تھا یہ جو کرسٹوفر کولمبس کو پہلی بار 1493 میں ’نئی دنیا‘ (اب گواڈیلوپ) میں ملا تھا اور جس کی ملکیت 17ویں صدی ہی میں ممکن ہو پائی کیونکہ اس سے پہلے بہت سے انناس کچے چُنے جاتے اور نتیجتاً یورپ پہنچنے تک سڑ چکے ہوتے۔

pineapple

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کنگ پائن

17ویں صدی کے وسط میں انناس برطانیہ کی شاہی مملکت میں ’پھلوں کا بادشاہ‘ قرار پایا۔ یہ پھل اپنے سر پر سنہری تاج کی نسبت سے ’کنگ پائن‘ مشہور ہوا۔

فرانسیسی طبیب پیئر پومیٹ کے مطابق ’انناس کو پھلوں کا بادشاہ کہنا منصفانہ تھا، کیونکہ یہ زمین پر موجود سب سے بہترین پھل ہے۔ بادشاہوں کے بادشاہ نے اس کے سر پر ایک تاج رکھا ہے، جو اس کی شاہی کا ایک لازمی نشان ہے۔‘

انناس کو یورپ پہنچنے کے لیے جو فاصلہ طے کرنا پڑتا اس کا مطلب یہ تھا کہ بہت کم لوگ ہی اسے دیکھ یا چکھ سکتے تھے، یوں اس کی حیثیت افسانوی بھی ہو گئی۔

گویا یہ ایسا پھل تھا کہ جو صرف بادشاہوں اور امرا کے نصیب میں آ سکتا تھا۔

انناس کی شہرت پر کتاب لکھنے والی مصنفہ فرین بیومن کا کہنا ہے کہ اگلی تقریباً دو تین صدیوں میں دولت اور امارت انناس ہی سے ظاہر کی جاتی رہی۔

چارلس اول کے شاہی ماہر نباتات جان پارکنسن نے انناس کو خوشبو اور ذائقے میں ایسا پھل قرار دیا کہ ’گویا شراب، گلاب کا عرق اور میٹھا آپس میں ملا دیے گئے ہوں۔‘

لیکن 1642 کی خانہ جنگی کے بعد کے کچھ سالوں میں انناس کا کوئی ذکر نہیں۔ بیومن اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ کٹر پروٹسٹنٹ اولیور کروم ویل کے نزدیک ’عاجز ناشپاتی کے مقابلے میں انناس ایک ناقابلِ برداشت تعیش کی طرح تھا۔‘ اس مختصرعرصے میں انناس گویا دشمن تھا۔

پھر چارلس دوم کو 1660 میں تخت سنبھالنے کے لیے واپس بلایا گیا، اور یوں فراوانی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا، بادشاہ اور انناس دونوں کے لیے۔

سنہ 1668 میں انگلینڈ میں فرانسیسی سفیر ویسٹ انڈیز کے جزیرے سینٹ کٹس پر ایک گرما گرم بحث کے لیے آئے۔

چارلس دوم نے اپنی کالونی باربیڈوس سے منگوایا انناس رات کے کھانے کی میزپر رکھوایا۔ مقصد خطے میں انگریز بالادستی پر زور دینا تھا۔ یعنی ’ہم انناس حاصل کر سکتے ہیں‘ اور ایسا لگتا ہے کہ ’آپ ایسا نہیں کر سکتے۔‘

تب سے انناس چارلس دوم کے مرتبے کی علامت بن گیا۔

Charles II

،تصویر کا ذریعہHERITAGE IMAGES

،تصویر کا کیپشن

چارلس دوم نے شاہی باغبان سے ’انگلینڈ میں اگایا گیا پہلا انناس‘ لیتے ہوئے اپنا ایک پورٹریٹ بنوایا

مرتبے اور امارت کی علامت

جیسے ہم آپ کسی بڑی شخصیت کے ساتھ سیلفی لیتے ہیں، اسی طرح سنہ 1675 کے آس پاس انھوں نے شاہی باغبان سے ’انگلینڈ میں اگایا گیا پہلا انناس‘ لیتے ہوئے اپنا ایک پورٹریٹ بنوایا۔

اس دعوے پر شک کا اظہار کرتے ہوئے بہت بعد میں یہ بتایا گیا کہ شاید اسے کچی شکل میں کہیں سے لایا گیا تھا اور انگلینڈ میں پکایا گیا تھا۔

بیومن لکھتی ہیں کہ یورپی سلطنتیں کالونیوں میں طاقت کے لیے لڑ رہی تھیں مگر انگلستان کی انناس تک رسائی اس کی طاقت کا ثبوت بنی رہی۔

‘ادھرڈچ بھی شوقین اور قابل باغبان تھے۔ پہلا گرین ہاؤس 1682 میں ہالینڈ میں تعمیر کیا گیا جس سے دونوں ممالک کے درمیان دشمنی تیز ہوئی۔ جب ڈچ تاجر پیٹر ڈی لا کورٹ نے انناس اگانے میں کامیابی حاصل کی تو انگریز حسد میں مبتلا ہوگئے۔

’یہ تب ہی ختم ہوا جب ایک سابق انگریز شہزادی اور ان کے ڈچ شوہر، ولیم آف اورنج ، نے تخت سنبھالا۔ بادشاہ کے طور پر ولیم کے دورمیں انناس چپقلش دھیمی ہوگئی۔‘

بہرحال 18ویں صدی کی ابتدا میں شروع ہونے والے جارجیائی دور تک برطانیہ میں انناس کی کاشت کا آغاز ہو چکا تھا لیکن انناس کی اہمیت کم ہونے کی بجائے اور بڑھ گئی۔

انناس ڈیزائن

،تصویر کا ذریعہCAROLYN STODDART-SCOTT

،تصویر کا کیپشن

اٹھارویں صدی میں لوگ اصلی پھل خریدنے یا کرایہ پر لینے کی استطاعت نہ رکھتے تو انناس کی شکل کے برتن خرید لیتے

اتنا مہنگا پھل کھائے کون؟

سنہ 1764 کے جنٹلمین میگزین کے مطابق انناس کی کاشت اور تیاری پر 150 پاؤنڈ (بینک آف انگلینڈ کے افراط زر کیلکولیٹر کے مطابق آج کل تقریباً بیاسی ہزار پاونڈ کے برابر) لاگت آتی تھی۔

بہت مشکلات سے تیار ہونے والے ایک انناس کی قیمت 60 پونڈ (تقریباً 11,000 پاؤنڈ کے برابر) تھی۔ اگر اس پر ٹہنیاں اور پتے باقی ہوتے تو اس کی قیمت اور بھی زیادہ ہوتی لیکن اتنا مہنگا پھل کھائے کون؟

بیتھن بیل کی تحقیق ہے کہ اس پھل کو کھایا تو نہ جاتا لیکن یہ برطانیہ کی امیر ترین اشرافیہ کی سماجی تقریبات کا اہم حصہ ہوتا۔ اس قدر قیمتی پھل کے مالکان انناس کو خصوصی پلیٹوں میں سجا کر کھانے کی میز سجاتے۔ انناس کو صرف دیکھا اور پسند کیا جا سکتا تھا۔ کھانے کے لیے دوسرے، سستے پھل جو تھے!

اکثر ایک ہی انناس کو ایک کے بعد دوسری تقریب میں امارت کے اظہار کے لیے تب تک رکھا جاتا جب تک کہ وہ آخرکار گل سڑ نہ جاتا۔

انناس کے لیے محافظ رکھے جاتے اور یہ خطرہ رہتا کہ ان کو لے جانے والی ملازماؤں کو کہیں لوٹ نہ لیا جائے۔

pineapple

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انناس کرائے پر

انناس کو کرائے پر دینے کا کاروبار بھی خوب چلا۔ کم دولت مند لوگ کسی خاص تقریب، ڈنر پارٹی یا یہاں تک کہ صرف دکھاوے کے لیے اسے اپنے بازو پر لے کر ٹہلنے کے لیے اسے کرائے پر لیتے۔

انناس کی ظاہری شکل 18ویں صدی کے بہت سے ڈیزائنرز کے لیے تحریک کا ذریعہ بن گئی۔ پھل کی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انناس کی تھیم والی اشیا مارکیٹ میں لائی گئیں۔

برتن، گھڑی کے کیسز اور پینٹنگز دھڑا دھڑ بکے۔ عمارتیں بھی اسی تھیم کی بننے لگیں۔ فیشن ایبل خواتین اپنے کپڑوں، اپنے تھیلوں اور یہاں تک کہ اپنے جوتوں پر اس پھل کی تصویر یا شبیہ لگواتیں۔

انناس مہمان نوازی اور سخاوت کی علامت بھی بنا۔ مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے نیپکن، ٹیبل کلاتھ، وال پیپر، اور یہاں تک کہ بیڈ پوسٹس کو انناس کے نقش و نگار سے سجایا جاتا۔

لوگ اصلی پھل خریدنے یا کرایہ پر لینے کی استطاعت نہ رکھتے تو انناس کی شکل کے چینی مٹی کے برتن اور چائے کے برتن خرید لیتے۔

18ویں صدی کے اواخر تک کسی بھی چیز کے بہترین ہونے کے لیے ’بہترین ذائقے کا انناس‘ کا استعارہ استعمال کیا جانے لگا۔

انناس کی رم بھی ا18ویں صدی کے آخر میں جان ولکس کی تحریر کے ساتھ مقبول ہوئی اور بعد میں 19یں صدی کے بعض مضامین اور چارلس ڈکنز کے ناولوں سمیت بہت سی تحریروں میں بھی نمایاں ہوئی۔

wimbledon

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اس کپ کو غور سے دیکھنے سے آپ انناس کی تصویر نظر آئے گی

ومبلیڈن میں انناس

1877 میں ومبلیڈن کا میلا سجنا شروع ہوا توجو کپ بنایا گیا۔ اس میں سب سے اوپر منی ایچر گولڈ پائن ایپل سجایا گیا۔ذرا غور کیجیے گا اس بار جب فاتح یہ کپ اٹھائے کیونکہ یہ ٹینس چیمپیئن شپ کچھ ہی دنوں میں منعقد ہونے جا رہی ہے۔

آسٹریلیا کی حکومت نے جلد ہی ملکہ بننے والی ایلزبتھ کو 1947 میں شادی کا جو تحفہ بھیجا وہ تھا انناس کے 500 ڈبے۔

انناس بنیادی طور پر انگریزوں ہی کا رجحان رہا۔ 1789 کے انقلاب کے بعد فرانس سے انناس غائب ہو گئے، اور دوسرے ممالک جیسے سپین، پرتگال، اور یہاں تک کہ روس (جہاں کبھی انناس نے کیتھرین دی گریٹ کے دربار میں جگہ بنائی تھی) انناس کی کاشت میں برطانیہ جیسی بھاری سرمایہ کاری برقرار نہیں رکھ سکے۔

امرا کو ہول کیوں آیا؟

جب بحری جہازوں کے ذریعے کالونیوں سے باقاعدگی سے انناس برطانیہ کو درآمد ہونا شروع ہوگیا تو اس کی قیمتیں گر گئیں۔

بیومن کے مطابق کبھی پرتعیش سمجھا جانے والا پھل، برطانیہ بھر کے بیشتر شہروں اور قصبوں میں سستے داموں ملنے لگا۔ یوں نہ صرف یہ کہ متوسط طبقہ ایک انناس کا متحمل ہونے لگا، بلکہ امرا کے لیے ہولناک بات یہ ہوئی کہ محنت کش طبقہ بھی اسے خرید سکتا تھا۔

جب انناس عام لوگوں کی دسترس میں آیا تو امرا خود کو عوام سے ممتاز کرنے کے نئے طریقے ڈھونڈنے لگے۔

لیکن میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر گوڈوِن کے اچھے کردار کی گواہی نہ دی گئی ہوتی تو ان کی کالے پانی کی سزا کتنے سال ہوتی؟

BBCUrdu.com بشکریہ