انسٹاگرام کے خلاف امریکی ریاستوں کی جانب سے ’بچوں کو ہدف بنانے‘ کی تحقیقات کیوں ہو رہی ہے؟
امریکی ریاستوں کا ایک گروپ اس بات کی تحقیقات کر رہا ہے کہ انسٹاگرام بچوں کو کس طرح نشانہ بناتا ہے اور ممکنہ طور پر خطرات کا باعث بنتا ہے۔
یہ گروپ، جس میں ڈیموکریٹ اور ریپبلکن دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہے، انسٹاگرام اور فیس بک کی مالک کمپنی میٹا سے متعلق یہ تحقیقات کر رہا ہے کہ آیا صارفین کے تحفظ کے قوانین کی خلاف ورزی تو نہیں کی گئی ہے۔
تحقیقات کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب امریکہ میں فیس بک کے ایک ملازم نے وسل بلوور کا کردار ادا کرتے ہوئے یہ گواہی دی کہ کمپنی جانتی ہے کہ اس کی مصنوعات بچوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
جمعرات کے روز میٹا کے ایک ترجمان نے اس کی تردید کی ہے کہ یہ پلیٹ فارم نقصان دہ ہے۔
میساچوسٹس کے اٹارنی جنرل مورا ہیلی کا تعلق ڈیموکریٹ جماعت سے ہے ۔انھوں نے سب سے پہلے اس معاملے کی تحقیقات کا اعلان کیا تھا۔ اپنے ایک ٹویٹ میں انھوں یہ لکھا تھا کہ ’فیس بک یا میٹا کمپنی یہ جانتی ہے کہ انسٹاگرام نوجوانوں میں ذہنی دباؤ، کھانے کے معمول میں ایک بگاڑ اور خودکشی جیسے رحجانات کا باعث بن رہا ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے یہ اعلان بھی کیا کہ ’ہم اس بات کی نشاندہی کریں گے کہ آیا کوئی قانون توڑا گیا ہے اور بہتری کے لیے غلط اقدام کا خاتمہ کریں گے۔‘
نیبراسکا کے اٹارنی جنرل ڈوگ پیٹرسن کا تعلق ریپبلکن جماعت سے ہے۔
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے کہا کہ یہ کمپنیاں ’ہمارے بچوں کو محض ایک اشیا کے طور لیتی ہیں تاکہ سکرین کے طویل وقت کی مصروفیت اور ڈیٹا حاصل کرنے جیسے مقاصد کی تکمیل کی جا سکے۔‘
نیویارک کی اٹارنی جنرل لیٹیا جیمز نے اس متعلق کہا ہے کہ ’یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز انتہائی خطرناک ہیں اور یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ نوجوانوں میں جسمانی اور ذہنی دونوں طرح کے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔‘
فیس بک، جو انسٹاگرام اور واٹس ایپ کی مالک کمپنی ہے، نے متعدد سکینڈلز منظر عام پر آنے کے بعد گذشتہ ماہ اپنا نام تبدیل کر کے میٹا رکھ دیا۔
میٹا کے ترجمان نے اس گروپ کے الزامات کی تردید کی ہے۔
اپنے ایک بیان میں ترجمان نے کہا ہے کہ ’یہ الزامات جھوٹے ہیں اور حقائق سے متعلق پائی جانے والی گہری غلط فہمی کو ظاہر کرتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’نوجوانوں کو آن لائن تحفظ فراہم کرنے جیسے چیلنجز پوری صنعت پر اثر انداز ہوتے ہیں، ہم نے اس صنعت کی قیادت کی ہے تاکہ کسی کی توہین نہ کی جا سکی اور ہم نے خودکشی کے رحجانات رکھنے والوں، خود کو نقصان پہنچانے والوں اور کھانے پینے کے معاملات میں خرابی سے لڑنے والوں کو مدد فراہم کی ہے۔‘
یہ اعلان فیس بک کی سابق ملازم فرانسس ہیوگن کی طرف سے لیک ہونے والی دستاویزات پر مبنی دھماکہ خیز خبروں کے بعد سامنے آیا ہے۔
امریکہ میں قانون سازوں کے سامنے گواہی دیتے ہوئے، فرانسس نے کہا تھا کہ کمپنی نے جان بوجھ کر اپنے اس پلیٹ فارم کو چھوٹے بچوں کو استعمال کرنے کی اجازت دی ہے اور کمپنی کو یہ بھی معلوم تھا کہ انسٹاگرام ان کی صحت کے مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔
ستمبر میں 40 سے زیادہ ریاستی اٹارنی جنرلز کے ایک گروپ کی طرف سے اس معاملے پر کمپنی کو خط لکھا اور اس سے بچوں کے لیے مختص ایپ کا منصوبہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا، جس کے بعد کمپنی نے یہ منصوبہ ختم کر دیا۔
دوسرے پلیٹ فارمز کی طرح انسٹاگرام کے لیے بھی صارفین کی عمر 13 سال سے زیادہ ہونی چاہیے لیکن کمپنی نے اعتراف کیا ہے کہ اسے معلوم ہے کہ کچھ صارفین کم عمر ہیں۔
Comments are closed.